عمر فاروق
دنیا میں آج تک کروڑوں لوگ آباد ہوئے۔مگر ہم صرف اُن لوگوں کو جانتے ہیں یا یاد کرتے ہیں جنہوں نے کوئی قابلِ ذکر علمی،عملی،ادبی،فکری،اصلاحی یا سیاسی کارنامہ انجام دیا ہو۔بیسویں صدی عالمِ انسانیت کی اہم ترین صدیوں میں شمار کی جاتی ہے۔اس صدی میں ہر فن کے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے،بڑی بڑی جنگیں ہوئیں،اکثر ممالک نے اپنی الگ ریاستیں تشکیل دئیں اور یوں دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔اسی صدی میں بڑے بڑے کارخانے قائم ہوئے،سائنسی ایجادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا اور دنیا کی ترقی اگر کچھوے کی رفتار سے جاری تھی تو وہ چیتے کو بھی مات دے گئی۔
برّصغیر کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں رہا۔یہاں بھی ہر اعتبار سے ترقی ہوئی بایں ہمہ کہ اس کی رفتار یورپ کے مقابلے میں دھیمی ہی رہی۔شخصیات کے لحاظ سے یہ زمین کافی زرخیز ثابت ہوئی۔اس دور کی کسی بھی شخصیت کا نام لیں تو بلاشبہ علامہ اقبالؒ کے بعد ہی لینا پڑے گا۔خداوندِ قدوس نے علامہ کو وہ عظمت بخشی تھی جسے دیکھ کر ٹوپی سر سے گرجاتی ہے۔انہیں حکیم الامت اور شاعرِ مشرق کے عظیم القاب سے ملقّب کیا گیا۔اقبالؒ محض ایک شاعر نہ تھے بلکہ ایک مُنجھے ہوئے فلسفی بھی تھے۔چوں کہ قرآن اور فلسفہ اقبال کی دلچسپی کا موضوع تھا،جس کا اظہار وہ اپنے کلام میں جابجا خود کرتے ہیں جیسے:
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی کبھی پیچ و تابِ رازی
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنّا جسے کہہ نہ سکیں روبرو
(بالِ جبریل )
فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید(The Reconstruction of Religious Thought in Islam)فلسفہ پر علامہ کی ایک مشہور کتاب ہے۔چوں کہ یہ کتاب عام قارئین اور طلبہ کیلئے سمجھنا قدرے مشکل ہے تو ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ اس کتاب کے مباحث کو قدرے آسان زبان میں بیان کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے سمجھ کر اپنی روح کو جِلا دے سکیں۔حال ہی میں بندہ عاجز کو محترم ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی صاحب کی کتاب”خطباتِ اقبال کی عصری معنویّت“کے مطالعہ کا موقع ملا۔اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ایک منفرد کتاب ہے،اسی لیے یہ میری دلچسپی کا موضوع بنی۔جوں ہی راقم الحروف نے اس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کرنا شروع کر دیا تو مجھے اپنے کالج امتحان کی مصروفیت نہ آگھیرا اور یہی وجہ ہے کہ کشاں کشاں امتحانات ختم ہونے کے بعد اس کا مطالعہ بڑے ہی احسن طریقے پر بالاٰخر مکمل ہوا۔فللہ الحمد۔
یہ کتاب تین سو سے کچھ زائد صفحات پر مشتمل ہے اور ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے بہترین طباعت کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔اس کتاب کے مصنف وادی کشمیر کے مشہورومعروف اقبال شناس ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی صاحب ہیں،جو اس وقت کشمیر یونیورسٹی کے اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی کے کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔یہ کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب بعنوان”خطباتِ اقبال:ایک مفصل تعارف“میں فاضلِ مصنف نے ان خطبات کا مفصل تعارف پیش کیا ہے۔ان خطبات کے لیے کیا چیز محرّک بنی اسکے بارے میں مصنف صفحہ ۲۴ پہ یوں رقمطراز ہیں کہ”ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے مطابق،خطبات کا اصل محرک اک مغربی مصنف نقولاس۔پی۔اغنیدز (Nicolas_P__Aghnides) کی کتاب MOHAMMAADEN THEORIES OF FINANCE کا یہ جملہ ہے:”In regards the Ijma,Some Hanafities and Mutazilities held that Ijma can Repeal “Quran and the Sunnah یعنی اجماع کے متعلق کچھ حنفی اور معتزلی حضرات کا ماننا ہے کہ اجماع قرآن و سنت کو بھی بدل سکتا ہے۔اس طرح علامہ اقبال نے اس مسئلے پر کام کرنا شروع کیا اور یہ خطبے مسلم ایسوی ایشن کی دعوت پر ۱۹۲۹ء میں مدارس حیدرآباد دکن اور علی گڑھ میں پڑھے گئے۔ان خطبات کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ اقبالؒ کی زندگی میں ہی انکے اردو ترجمے پر کام شروع ہوا۔اسکے بعد مصنف نے خطباتِ اقبال کی اہمیت کے حوالے سے کچھ اقوال نقل کیے ہیں اور ایک بہترین بات لکھی ہے کہ”مطالعۂ خطبات کے دوران ہمیں اعتدال و توازن کی راہ اختیار کرنی چاہیے اور علامہ کی شاعری کو قطعاً فراموش نہیں کرنا چاہیے۔خطبات کی اہمیت سے قطعاً انکار نہیں بلکہ فکرِ اقبال میں ان خطبات کا ایک اہم ترین مقام ہے لیکن یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ اقبالؒ کا تمام و کمال ان ہی خطبوں پر منحصر و محیط ہے“(صفحہ ۴۲)
باب دوم میں مصنف نے اقبالؒ کے ان ساتوں خطبات کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے جو اصل کتاب کو سمجھنے میں کافی اہم ثابت ہوسکتا ہے۔اقبالؒ نے جس فکر کو ثقیل الفاظ کی مدد سے اور مشکل پیرائے میں بیان کیا ہے فاضل مصنف نے اسے کافی حد تک آسان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے باوجود کہیں کہیں ان خطبات کی ذاتی خشکی کا رنگ غالب آیا ہے۔یہ اہم باب تقریباً سو صفحات پر محیط ہے۔ان مباحث سے مصنف کی دقّتِ نظر ،علم اور معاملہ فہمی کا پتا چلتا ہے۔
تیسرے باب میں مصنف نے”خطباتِ اقبال کی عصری معنویت“کو نظریۂ اجتہاد کے تناظر میں بیان کیا ہے۔اس باب میں انہوں نے اقبال کے نطریۂ اجتہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال اجتہاد کے زبردست حامی تھے۔وہ غلط عمل کو بے عملی پر ترجیح دیتے تھے کیوں کہ بے عملی میں موت مضمر ہے۔(صفحہ_ ١٧٨)
اقبالؒ امت کے جمود کے زبردست مخالف تھے اور چاہتے تھے کہ اب امت ماضی سے لاتعلق ہوئے بغیر مستقبل کی حفاظت کے لیے اجتہاد کا راستہ اپنائے۔چنانچہ فاضلِ مصنف آگے یوں رقمطراز ہیں کہ”اقبالؒ کے نزدیک تین سو سالوں کے ارتقائی عمل کے خلا کو پورا کرنے کی ایک تدبیر یہ ہے کہ ایک مجلسِ قانون ساز بیٹھے جو اپنی فکری کوششوں سے اس خلا کو پُر کردے (صفحہ _ ۱۸۴)۔
اقبالؒ کے نظریۂ اجتہاد کا اثر یہ ہوا کہ جگہ جگہ دارُالافتاء قائم ہوئے۔اس حوالے سے موصوف نے سعید اکبر آبادی کا ایک قول نقل کیا ہے کہ”عالمِ اسلام میں اس وقت اسلامی قوانین کی تدوینِ جدید کے لیے جتنی انفرادی اور اجتماعی کوششیں ہورہی ہیں،یہ سب دراصل اقبالؒ کے خواب کی تعبیریں ہیں۔اس لیے اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اس پر مسرور ہونے کا حق ان سے زیادہ کسے ہوتا؟(صفحہ ۱۹۲)
باب چہارم میں مصنف نے”بیسویں صدی میں اقبالؒ کا ایک اہم ترین اجتہادی کارنامہ خطباتِ اقبال کے تناظر میں“کے عنوان سے کافی گراں قدر باتیں لکھی ہیں۔اس میں موصوف نے اقبالؒ کے ایک اہم ترین اجتہادی مسئلہ ”بر صغیر کی معاشرت میں عورتوں کے حقوق“کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ”ان حالات میں علامہ اقبالؒ ہی نے سب سے پہلے عالمِ اسلام کے علماء کو بالخصوص اس جانب توجہ دلاتے ہوئے امام شاطبی کی معروف فقہی تصنیف”الموافقات“کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ مذہب،عقل،نسل اور جان و مال کی حفاظت تو اسلامی قانون کے مقاصد میں سے ہے لہٰذا اگر فقہ اسلامی نے مظلوموں کی دادرسی نہیں کی تو لوگ مذہب اسلام سے برگشتہ ہوکر کوئی اور راہ اپنا لینے پر مجبور ہوں گے“(صفحہ ۲٠٧)۔اس کوشش کا یہ نتیجہ ہو اکہ ۱۹٦٢ء میں سب سے پہلے عائلی قوانین کا نفاذ پاکستان میں ہوا اور اس طرح حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کی اجتہادی تحریر”الحیلة الناجزۃ للحیلة العاجزة“(مجبور بیوی کے لیے کامیاب حیلہ) اور ۱۹۳۹ء کا قانون تنسیخِ نکاح ظہور میں آئے تھے“۔( صفحہ ۲۰۹)
باب پنجم بعنوان”اردو زبان و ادب میں معاصر تحقیقی اور فکری رویوں کا ایک تحقیقی جائزہ:خطباتِ اقبال کے تناظر میں“کے تحت مصنف نے بہت سارے ماہرینِ اقبال کے کام کی طرف توجہ دلائی ہے۔جس سے پتا چلتا ہے کہ اہلِ علم کے نزدیک اقبالؒ کے ان خطبات کی کیا اہمیت ہے۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ”میر شکیب ارسلان اور بعض دوسرے اکابر کے خیال میں ان خطبات کے حوالے سے گزشتہ دوسو سال سے کوئی مسلم اسکالر اقبالؒ کا ہم پلہ نظر نہیں آتا(صفحہ ۲۲۰)۔
اس باب کے آخر میں فاضلِ مصنف لکھتے ہیں کہ” خطباتِ اقبال کے بیشتر تراجم پر نظرِ ثانی کی گنجائش موجود ہے اور جدید تراجم اور تحقیقی کاوشوں کی ضرورت بھی کبھی ختم نہیں ہوتی۔اس کا سبب یہ ہے کہ فکریاتِ اقبال پر قلم اٹھانے کے لیے جس وسعتِ مطالعہ اور تنقیدی بصیرت کی ضرورت ہے وہ ہمارے اقبال نقادوں میں الا ماشاءاللہ مفقود ہے۔(صفحہ ۲۴۰ )۔
اس کتاب کے آخری باب میں بہت سارے اہلِ علم کے فاضل مصنف کے کام کے متعلق تاثرات کو جمع کیا گیا ہے جن میں ڈاکٹر جاوید اقبال،پروفیسر جگن ناتھ آزاد اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی وغیرہ کا نام قابلِ ذکر ہے۔
الغرض بحیثیتِ ایک طالب علم میں نے اس کتاب کو خطباتِ اقبال کو سمجھنے کیلئے کافی مفید پایا،جو یقینًا مصنف کی محنت کا ثمر ہے۔جو بھی فکرِ اقبال کو گہرائی میں جا کر سمجھنا چاہتے ہوں وہ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب کا ضرور بالضرور مطالعہ کریں۔امید ہے کہ آئندہ بھی اللہ کے فضل و کرم سے ڈاکٹر صاحب اس جیسی مزید علمی اور تحقیقی کاوشیں منظرِ عام پر لانے کی سعی کریں گے تاکہ ہم جیسے طلباء بھی ان سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
<[email protected]>