جناب غلام قادر خان ( قلمی نام شہزادہ بسمل) ؔ کی یہ دلی محبت اورادب دوستی کی دلیل ہے کہ انہوں نے ناچیز کے لئے سر ینگر سے دراس کرگل اپنے تازہ ترین دو افسانوی مجموعے از راہِ کرم ارسال فرمائے:’ خوشبو کی موت ‘‘ اور’’ اپنی بات‘‘۔ اول الذکر کتاب میںان کی سترہ کہانیاں شامل ہیں جو غالبًا ملک اور ریاست کے روزناموں او ر رسالوں میں شائع ہوکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔اس کا پیش لفظ صدر جموں و کشمیر فکشن رائٹر س گلڈ ڈاکٹرنذیر مشتاق صاحب نے لکھا ہے جو اپنے آپ میں ایک مختصر مگرجامع تحریر ہے۔ اس میں انہوںنے مصنف کی ادبی زندگی کا خاکہ بہترین انداز سے پیش کیا ہے ۔ لکھتے ہیں:’ ’جناب شہزادہ بسملؔ کا ہر افسانہ گویا سمندر ہے ، جو ہر سطر کے ساتھ پرت پرت کھلتا جاتا ہے اور اس کے اندر پوشیدہ لعل و گوہر کی چمک قاری کے ذہن و دل کی نظر کو خیرہ کرنے لگتی ہے۔‘‘
’’ اپنی بات ‘‘ کے تحت شہزادہ بسمل ؔ نے اپنی کہانی کاری کی رُودادِسفر سناتے ہوئے بڈگام کے ایک محب کا ذکر کیا ہے جو اس افسانوی مجموعے کو شائع کروانے میں محرک ثابت ہوئے ہیں ۔ آخر میں مصنف نے اپنی کامیاب ادبی زندگی کاسہرا اپنے ایک اُستاد مرحوم اکبرؔ جے پوری کے سر باندھا ہے ۔
زیر مطالعہ دو مجموعات میں شامل کہانیوں میں بسملؔصاحب نے اپنے مشاہدات اور محسوسات کو فنی مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔یہ کہانیاں کسی پاتال کی بات نہیں بلکہ ہمارے سماج میں یہ جابجا پائی جاتی ہیں۔ ان کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ افسانہ نگار نے ان کو لفظی پیچیدگیوں سے مکمل طور پاک رکھا ہے ،حالانکہ بسمل ؔ صاحب کو اُردو ، ہندی او رانگریزی پر عبور حاصل ہے ،اگر وہ چاہتے تو قاری کو الفاظ کی بھول بھلیوں میں اُلجھا کر رکھ دیتے مگر انہوں نے ا س سے احتراز کیا ہے ۔ کہانیوں کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ ہمارے سماج سے لگا اور ہمارے قریبی مشاہدے سے میل کھاتی ہیں ۔ قاری کو محسو س ہوتا ہے جیسے یہ سب چیزیں اس وقت میری نظروں کے سامنے وقوع پذیر ہورہی ہیں ۔ ان کی کہانیوں میں جودرد پیوستہ ہے ہے ، یہ کبھی کھبی یہ اپنا درد لگتا ہے ۔مثلاً’’ بہتی دھارا‘‘ کی کہانی میں ایک غیر شادی شدہ سکول ٹیچر کچھ گود لئے بچوں کے بارے میں کہتی ہے :’’ اب یوں سمجھئے کہ یہی میری شادی ہے ،یہی میرے پتی ہیں ،یہی میرے بچے ہیں اور یہی میری دنیا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ میری دنیا بہت حسین ہے۔‘‘ یہ میڈم ان بچوں کی خاطر شادی کرتی ہے نہ گھر بساتی ہے ۔ کہانی ’’غبارے والا‘‘ ایک ایسی عورت کا کردار سامنے لاتی ہے جو ذہنی طور سے معذور ہے اور سڑک حادثے میں فوت شدہ اپنے بچے کو زندہ مان کر اس کے کھیلنے کے لئے غبارے خریدتی ہے ۔ آخر پر اس خاتون کا باپ غبارے والے کو اپنی بیٹی کی بپتا سناکر کہتا ہے:’’ میڈم بھی اللہ کو پیاری ہوگئی ۔تم سے خریدے ہوئے سارے غبارے اندر کمرے میں پڑے ہیں ۔چاہو تو سمیٹ کر لے جاسکتے ہو ‘‘ ۔ ’’خوشبو کی موت‘‘ یہ کہانی اس افسانوی مجموعے کی جان ہے ۔ اس میں ایک ایسی دُلہن کی داستان ہے جس کے سپنوں کی دنیا سہاگ رات کے دن ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ اس کے ساتھ دھوکہ ہوتا ہے لیکن وہ راز چھپائے رہتی ہے۔ آخر میںجب وہ مرنے کے قریب ہوتی ہے تو وہ یہ راز اپنی سہلی پر کھولتی ہے ۔ اس کے آخری کلمات یہ ہیں : ’’ میں اشتیاق بھرے انتظار میں سنبھل کر بیٹھ گئی ۔کوئی میری مسہری پر آیا ۔اُس کے منہ سے شراب کی بدبو آرہی تھی۔میں نے چونک کر اُسے دیکھا مگر یہ نہیں تھا ۔پھر پھر اگر یہی میرا دولہا تھا تو پھر وہ کون تھا‘‘ ؟ اس افسانو ی مجموعے کی سبھی کہانیاں اپنے اندر بہت سارے جگر سوز و دلگداز واقعات اور زندہ جاویدکردار سموئے ہوئے ہیں ۔ کہانیاں فنی نزاکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیان کی گئی ہیں ۔
قارئین ِادب ، ماہرافسانہ نگاروں بالخصوص نئے افسانہ نگاروں کے لئے یہ دونوں افسانوی مجموعے لائق مطالعہ ہیں ۔ان کہانیوں میں نہ صرف سماج کی تلخ حقیقتیں جھلکتی ہیں بلکہ نو آموز افسانہ نگاروں کو یہ فنِ افسانہ نویسی کے اسرار و رموز سکھانے میںبہت کا گر ثابت ہوسکتے ہیں ۔
8082713692