شبنم بنت رشید
جس طرح ایک انسان کے ہاتھ کی انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں، بالکل اسی طرح ایک ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے بچے بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ نہ رنگ و روپ میں اور نہ ہی شکل و صورت میں اور نا ہی انکی قسمت ایک جیسی ہوتی ہے۔
عظمت علی کی کل تین اولادیں تھیں، ایک بیٹی فریدہ اور دو بیٹے اعجاز اور امتیاز۔ امتیاز سب سے چھوٹا اور اپنے ابا کا لاڑلا تھا۔ شہر کے مرکز میں چھ کمروں پر مشتمل وارثت میں ملا ایک گھر عظمت علی کا کُل اثاثہ تھا۔
جوان ہوتے ہی عظمت علی نے اپنی بیٹی فریدہ کا بیاہ ایک دور دراز گاؤں میں کردیا۔ اسکے سسرال والے بڑے زمیندار تھے۔ انکے پاس بیشمار پیسہ تھا لیکن شوہر غصیلے مزاج کا بندہ تھا۔ اس نے ہمیشہ فریدہ کو دبا کر رکھ دیا۔ کچھ سالوں کے بعد امتیاز اور اعجاز کی بھی شادی ہوئی۔ اعجاز ایک بیٹے کا باپ تو بن گیا لیکن امتیاز چار پانچ سالوں کے بعد بھی جب صاحب اولاد نہ ہوا تو عظمت علی بے حد فکرمند رہنے لگے۔ ادھر گاؤں میں فریدہ نے تیسری بیٹی کو جنم دیا۔ عظمت علی بہت خوش ہوئے۔ جاکر اپنی بیٹی اور داماد کے سامنے اپنا دامن پھیلا کر کہا، آپ اپنی تیسری بیٹی کو اپنے بے اولاد بھائی اور بھابی کی گود میں ڈال دیں۔ لیکن فریدہ کے شوہر اسحاق نے صاف صاف منع کردیا۔ مایوس عظمت علی نے ایک سرکاری ہسپتال سے ایک لاوارث بچے کو پورے لوازمات کے ساتھ لاکر بہو کی گود میں ڈال دیا اور بڑے اشتیاق سے اسکا نام وارث رکھا۔ پھر اس بچے کی پرورش بڑے ہی خوشگوار اور پیار بھرے ماحول میں کرنے لگے۔ شکل و صورت سے تو وہ کوئی شہزادہ لگ رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔
عظمت علی نے پورے خاندان کو قسمیں دلا دلا کر ان سے وعدہ لیا کہ مرتے دم تک وارث کو یہ پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ وہ اس خاندان کا خون نہیں۔ ابھی وارث چھوٹا ہی تھا کہ امتیاز ایک مہلک بیماری کا شکار ہو کر چل بسا۔ بیٹے کی موت نے عظمت علی کی کمر تو توڑ کے رکھ دی مگر دل کو بڑا مضبوط کر کے بہت ہمت سے کام لیکر انہوں نے اپنی بیوہ بہو اور پوتے کی روزمرہ کی ساری زمہ داریاں اپنے سر لے لیں۔ سب سے پہلے اپنے لے پالک پوتے کے نام اسکے حصے کی وراثت اسکے نام کر کے اپنا پہلا فرض نبھایا۔ ساتھ ساتھ اپنی تمام تر محبتیں اور شفقتیں اس پر لٹا تا رہا۔ وارث بھی مطمئن اور اپنی حد میں رہنے والا بچہ ثابت ہوا۔ چھوٹی عمر میں اپنے دادا کی مجبوری اور اپنی امی کا دکھ سمجھ گیا۔ اسلئے جوانی کی طرف بڑھتے ہی اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ رات دیر گئے تک ایک بہت بڑے ڈاکٹر کے کلینک پر کام کرنے کے علاؤہ اللصبح اٹھ کر سائیکل پر سوار ہو کر سینکڑوں گھروں تک اخبار پہنچا کر ایک مخصوص رقم باقاعدگی سے کما کر اپنی امی کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاتا رہا۔ وہ نمازوں و روزوں کا پابند تھا ہی، ساتھ ساتھ محنت کا جوش اور ولولہ اسکے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ وہ اپنی محنت اور پڑھائی میں مگن تھا۔ اسی دوران فریدہ کی تیسری بیٹی احساس کو اپنی پڑھائی کے آخری دو سالوں کے لیئے شہر آنا پڑھا۔ باپ پیسے والا تھا اپنی بیٹی کے لیے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ چاہتا تو شہر میں ایک مکان خرید سکتا تھا، یا کرائے پر مہنگے سے مہنگا فلیٹ بھی لے سکتا تھا یا وہ ہوسٹل کا خرچہ بھی آرام سے اٹھا سکتا تھا مگر احساس نے نا نا کے گھر پہ رہنے کو ہی ترجیح دی۔ ویسے تو احساس سال میں کئی کئی بار نانا کے گھر آتی رہتی تھی مگر اس بار وہ دو سال رہنے کے لیے آئی تو نانا سارے گلے شکوے بھول کر خوش ہوئے۔
گھر میں اسکے لئے سب سے اچھے کمرے کا انتخاب کیا۔ نئے سرے سے کمرے کا رنگ و روغن کروایا۔ کھڑکیوں پر نئے پردے، نیا بیڈ، نیا بستر، چادریں، اور تکییے ڑلوائے۔ پڑھنے لکھنے کے لئے ایک کرسی اور میز بھی منگوائے تاکہ احساس کو کوئی دقت نہ ہو۔ احساس اچھی لڑکی تھی۔ نہ باپ کے پیسے کا گھمنڈ، نہ کھانے پینے کو لیکر کوئی نخرہ۔ صرف اپنی پڑھائی پر دھیان دیتی رہی۔
وارث نے یہاں بھی صاف گوئی سے اپنی زمہ داری نبھائی۔ وہ احساس کو بڑے احترام کے ساتھ ہر دن اپنی بائیک پر یونیورسٹی چھوڑ تا تھا اور پھر واپس یونیورسٹی سے گھر آنا تھا۔ کبھی کبھار رستے میں چنےچاٹ یا گول گپے بھی کھلاتا تھا۔ سب خوش تھے اور پلک جھپکتے ہی دو سال کا عرصہ گزر گیا۔ احساس آج فائنل کا آخری پرچہ دیکر فارغ ہوئی، اگلے ہی دن صبح سے دوپہر تک اس نے اپنی کتابیں اور دیگر سامان سمیٹ لیا۔ پھر سب نے مل جل کر ایک ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ تب تک احساس کے ابو اسحاق بیٹی کو لینے گاڑی لیکر پہنچ گئے ۔ چراغ نے بڑے طریقے اور ترتیب سے احساس کا سارا سامان گاڑی میں رکھ دیا۔ سب نے احساس کے ماتھے کو چوم چوم کر رخصت کیا۔ لیکن گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے احساس نے خاموش مگر تشکر بھری نظروں سے وارث کی طرف دیکھا۔ تھکن سے چور وہ رات دیر گئے اپنے ابو کے ساتھ گھر پہنچی۔
احساس تو حیا اور شرافت کی مورتی تھی۔ اسے اپنوں کا احساس تھا۔ وہ سب سے چھوٹی تھی اس لئے لاڈلی تھی مگر اسکے مزاج میں ضد نہ تھی بلکہ ٹھہراؤ تھا۔ جب سے وہ ننیہال سے لوٹی دل کی دھڑکنیں بے ترتیبی سے دھڑکنے لگیں شاید کوئی احساس یا کوئی خیال دل کے اندر پل رہا تھا۔ شاید اسنے اپنے دل کے مندر میں کسی کو بٹھا یا تھا۔ جسکی وہ اندر ہی اندر پوجا کر رہی تھی۔ کہتے ہیں نا کبھی کبھار انسان کے ساتھ ایسے ہوتا ہے کہ جو انسان چاہتا ہے یا سوچتا ہے وہی ہوتا ہے۔ یہی کچھ احساس کے ساتھ بھی ہوا۔ ایک دن اچانک نانا اپنی بہو کے ساتھ آیا اور فریدہ سےوارث کے لئے احساس کا ہاتھ مانگ لیا۔ فریدہ خوش ہوئی تو خوشی کے مارے اپنے ابا کی بات کی تائید کی۔ سر ہلا کر اقرار بھی کیا مگر کچھ لمحوں بعد اندر ہی اندر گھبرا گئی کیونکہ اسکا شوہر اسحاق غصیلے مزاج کا انسان تھا، اس تک بات پہنچانا اور پھر اسے منانا ایک پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلانے کے برابر تھا۔ اسے تو اپنے پیسے کا، اپنے خاندان کا اور اپنے رتبے کا گھمنڈ تھا۔ کچھ دن بعد موقع دیکھ کر فریدہ نے بڑے محتاط اور التجاعیہ انداز میں احساس اور وارث کے رشتے کی بات بتائی۔ وہ تو تھا بنیا کا بیٹا اس نے سنتے ہی کہا مجھے تو تم بڑی عقل والی عورت لگ رہی تھی مگر تم تو احمق اور کم عقل عورت نکلی۔ اسلیے اپنی بیٹی کا رشتہ ایسے دو کوڈی کے لڑکے سے جوڑنے کی سفارش کررہی ہو جسکے نہ ماں باپ کا پتہ ہے اور نا ہی خاندان کا۔ کیا ہے اس کے پاس؟ چار جماعتیں پڑھ کر کوئی کسی کی برابری تو کرسکتا ہے لیکن خاندان اور خون کو ہر گز نہیں خرید سکتا۔ میں نے یہ بات بہت پہلے ہی اپنے دوست کے ساتھ طے کی ہے کہ احساس کی شادی چراغ یعنی میرے دوست کے بیٹے سے ہو گی۔ وہ اپنے خاندان کااکلوتا چشم و چراغ ہے، گھر میں ہر چیز اور پیسہ پانی کی طرح میسر ہے۔ جبکہ شہر میں تو کبھی کبھار پانی کے بھی لالے پڑھ جاتے ہیں۔ چراغ کے ساتھ میری بیٹی پر سکون اور خوشحال زندگی گزار سکتی ہے۔ اسحاق نے ڈھکے چھپے الفاظ میں صاف صاف انکار کردیا۔
وارث ہمارے خاندان کا خون نہیں ہے۔یہ ایک حقیقت ہےاور حقیقت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ پھر بھی وہ کوئی غیر نہیں ہماری آنکھوں کے سامنے پلا بڑھا ہے۔ اسے بڑے لاڑ پیار اور اچھے ماحول میں پالا گیا ہے، اپنی خصلت اور دیانتداری، ذہانت، کردار اور شرافت سے کسی اچھے خاندان کا ہی خون تو وہ بھی لگ رہا ہے۔ رہی بات دولت کی یہ چیزیں تو شرافت اور کردار کے بعد آتیں ہیں۔ خیر جلد بازی کے بجائے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا، بیٹی کا معاملہ ہے۔ فریدہ نے آج پہلی بار نڈر ہو کر شوہر کو سمجھایا تو مگر فریدہ کو جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ شام کو ہی اسحاق نے اپنے دوست کو گھر بلایا۔ اگلے دن وہ اپنی دولت کا دکھاوا اور نمائش کرتے ہوے پھل، فروٹ سے بھرے کئی ٹوکرے، مٹھائیوں کے ڈبے اور لاکھوں کا زیور لیکر اپنی گاڑی میں اپنی بیوی کے ساتھ بڑی ٹھاٹ باٹھ سے آیا۔ وہ چائے ناشتے کے بعد رشتے کی بات پکی کرکے واپس چلےگئے ۔ فریدہ اپنی بیٹی کے دل اور دل کے درد سے واقف تھی لیکن اسکے ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا۔ اسلئے دونوں ماں بیٹی سہم کر مسلسل روتی رہیں۔ اسحاق کےدوست کا بیٹا چراغ اچھا لڑکا نہ تھا۔ اس نے آج تک کئی کئی کارنامے انجام دیئے تھے، جن پر باپ کی دولت نے پردہ ڈال رکھا تھا۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود احساس اپنی زبان نہ کھول پائی۔ احساس کو اپنوں کا احساس تھا۔ وہی احساس اسکی زبان کا تالا بن گیا اور اسے اسی احساس نے اندر ہی اندر مار ڈالا۔
یوں کھو گئی ہوں رنج الم کے غبار میں
منزل تو سامنے ہے مگر راستہ نہیں
اپنے، پرایوں کو بلا کر شادی کا پروگرام کئی دن تک چلا۔
چراغ پہلے دن سے ہی احساس کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا رہا اس پر ظلم ڈھاتا رہا۔ ڈھیر سارا وقت اس طرح گزر گیا۔ اس ہفتے جب احساس صرف ایک رات کے لیے مائیکے آئی تو رات کو چراغ غیر متوقع طور پر آ ٹپکا، نہ اندھیری رات کے اندھیرے کی نزاکت کو سمجھا اور نا ہی رشتوں کا لحاظ کیا۔ احساس کوماں باپ کے سامنے مارا پیٹا جس سے احساس کی پیٹ میں تین مہینے کا حمل ضایع ہوا۔اسحاق اور فریدہ نے مداخلت کی تو ان کے ساتھ بھی گالی گلوچ کرتے ہوئے واپس طلاق کی دھمکیاں دیتے ہوئے چلا گیا۔ اگلے دن احساس کو طلاق نامہ بھیج دیا تو پورے گھر میں موت کا سناٹا چھا گیا۔
اپنی تباہیوں کا کسی سے گلہ نہیں،
یہ واردات صرف میرا واقعہ نہیں
اس کے بعد اسحاق کبھی سکون کی نیند نہ سو سکا۔ ایک روز اسحاق اپنے ہاتھ میں بیٹی کا طلاق نامہ لیکر فریدہ سے کہنے لگا کہ مجھے تو میرے دوست کے بیٹے نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ورنہ تو مقدر لکھنے والے نے میری بچی کے لیے بہترین انتخاب کیا تھا۔ میرا دل رو رہا ہے کس طرح میں نے خود اپنی بیٹی کی زندگی اپنے ہاتھوں سے خراب کردی۔
چھوڑ دیں ان ساری باتوں کو یہ قسمت میں لکھا ہوا تھا اور قسمت کے لکھے ہوئے کو کون مٹا سکتا ہے، فریدہ نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسوں صاف کرتے ہوئے اسحاق کو تسلی دی۔
وارث تو ہمارے خاندان کا خون نہیں مگر اس میں اس معصوم کا کیا قصور تھا۔ اسحاق نے فریدہ کی بات کاٹتے ہوے کہا۔
فریدہ نے آسمان کی طرف دیکھا جہاں چاند ابھی ابھی گہرے بادلوں سے نکل کر چمکنے لگا۔
���
پہلگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9419038028