کشمیر میں حالات کب سدھریں گے؟امن کب قائم ہوگا؟ سکھ چین کب لوٹے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا صرف ایک جواب ہے کہ جب ہندپاک حکومتوں کو احترام ِ آدمیت کی اہمیت اور امن وپراپرجائی کے فوائد ذہن نشین ہوں گے ۔ ریاست جموں کشمیر پانچ ہزار سالہ تاریخ کی امین ہے،اس کی اپنی انفرادیت اور تہذیب ہے ۔ چودھویں صدی عیسوی میں ارض ِکشمیر کے سیاسی اُفق پر مسلمان نمودار ہوئے ۔اس سے پہلے اس حسین وجمیل مملکت پر 22خاندانوں نے حکومت کی تھی ۔ان میں سے 18 مقامی تھیں جن کے دور میں کشمیر ایک خود مختار ملک تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں للتا دت کشمیر کا طاقت ور حکمران تھا۔ اس کے عہد حکومت میں کشمیر نہ صرف بر صغیر کا خوشحال ترین خطہ تھا بلکہ اس کی سرحدیں بھی وسیع تر تھیں۔ مسلمانوں نے کشمیر پر 480 سال (1819-1339) تک حکومت کی۔اس دوران 248 سال (1585-1339) تک کشمیر آزاد وخود مختار ملک رہا ۔ آزادی کی اسی فضا میں ملک کشمیر ترقی، خوشحالی ، شان و شوکت، فوجی طاقت اور امن و سکون کی معراج پر رہا ۔ جب ہندوستان پر مغلیہ حکومت تھی تو مسلمانوں کی یکے بعد دیگرے فتو حات نے تاریخ ہند کونیا رُخ دیا، جب کہ مسلم تہذیب و ثقافت، مادی ترقی اور فارغ البالی نے ایک نئے سماج کو تشکیل دیا ۔ مسلمانوں نے اپنی تعلیم وتربیت اور فکرو فن سے ملک کی رگ رگ میں تعمیرو ترقی کا لہو دوڑ ا دیا۔ ہند وستان میں مسلم سلطنت کے تقریباََ سات سو سالہ دور میں دونوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے پاس بڑے بڑے عہدے اور اعلیٰ سرکاری مناصب تھے ،بڑی بڑی ریاستیں ان کے زیر نگین تھیں۔ 1585ء میں مغل بادشاہ اکبر اعظم نے ملک کشمیر میں فرقہ دارانہ فسادات کا فائدہ اُٹھا کر اس پرمتعدد حملے کر دئے لیکن ان حملوں میں کشمیریوں کی بہادر افواج نے اکبر کو شکست فاش دے دی۔ اس کے بعد تیسرے حملے میں وہ ملک ِکشمیر پر سازش کر کے قابض ہونے میں کامیاب ہوا۔ یوں1585ء میں ہی کشمیریوں کے لئے پہلا یومِ سیاہ بنا ۔ شاہانِ مغل نے خود مختار ملک کشمیر کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیااور 166؍ سال تک مغلیہ خاندان نے کشمیر پر حکومت کی۔ مغلوں کے زوال کے بعد افغانوں نے کشمیر پر حملہ کر کے اپنے قبضے میں لیا ۔ یہ واقعہ بھی اہل کشمیر کے لئے یومِ سیاہ تھا۔ افغانوں نے کشمیر پر قبضہ جماکر67 سال تک تخت وتاج سنبھالا۔ قوم افغان کے بعد لاہور دربار کے روح رواں مہاراجہ رنجیت سنگھ کشمیرپر قابض ہو گیا اور 27؍ سال تک کشمیر پر حکومت کی۔ اس عہد حکومت کے دوران مظلوم قوم کو مصیبت و آلام کا انتہائی ابتر دور دیکھناپڑا۔یہ بھی کشمیر کی تاریخ میں یوم سیاہ کا بد ترین نمونہ تھا۔ سکھوں نے ملک کشمیر پر قبضہ کیا مگر غیور کشمیری عوام نے ہربار کی طرح اس بار بھی اغیار کی غلامی کو دل سے قبول نہ کیا، انہوں نے اپنی جدو جہد جاری رکھی،لازوال قربانیاں پیش کیں مگر کبھی بھی غیروں کا تسلط تسلیم نہ کیا۔ اُدھر انگریز و سطی ہندوستان پر کاملاً قابض ہو چکے تھے ۔ 1846ء میں انگریزوں اور سکھ سلطنت کے ما بین گھمسان کی جنگ ہوئی، جس میںخالصہ کی شکست ہوئی اور پنجاب بمع ملک کشمیر 9؍ اپریل 1846ء کے معاہدۂ لاہور کے تحت انگریز وں کی عملداری میں آگیا لیکن انگریزوں نے ایک ہفتے بعد 16؍ اپریل 1846ء کو خطہ کشمیر کو بیعٔ نامہ امرتسر کے تحت جموں کے مہا راجہ گلاب سنگھ جو دربار سے تعلق رکھتا تھا اور اسی مناسبت سے جنگ میں انگریزوں کی مدد بھی کی تھی، کے ہاتھ ملک ِ کشمیر بمع باشدگانِ وطن 75؍ لاکھ نانک شاہی کے عوض بیچ ڈالا۔ دُنیا کی تاریخ میں شاید کسی مفتوحہ قوم کے بارے میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ علامہ اقبال ؒ نے اس معاہدے پر یوں چوٹ کی ؎
باد صبا اگر جینوا گزر کنی
حرفے زبابہ باز گوئے
دہقان و کشت و خیا بان فروختند
قومے فروختند وچہ ار زان فروختند
16 ؍ اپریل 1846 ء سے لے کر 1947ء تک شخصی راج کے دوران مظلوم و محکوم کشمیری قوم کے جملہ انسانی حقوق پا مال کئے گئے ۔ اغیار کے زیر تسلط کشمیر کی مسلم آبادی جن بے انتہا مصائب میں گرفتار ہوئی اور جن آفات کی شکار ہوئی، اس کی غم ناک داستان تواریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ باشند گانِ کشمیر کی فلاکت و مصیبت کی یہ طویل داستان آج بھی بدلے ہوئے انداز میںدہرائی جارہی ہے، کشمیر کے ناگفتہ بہ حالات اس داستانِ الم کا جلّی عنوان ہے ۔افسوس کہ جو کشمیری قوم حسب و نسب کے اعتبار سے اعلیٰ وارفع ہے،انسانیت کی دلدادہ ہے ، سادہ مزاج ہے ، مہمان نواز ہے ، ہنرمند ہے ، حد درجہ ذہین و طباع ہے، وہ کئی صدیوںکے سفر میں بے بسی کی زندگی بسر کرتی ر ہے۔ سنتالیس میں شخصی راج سے نجات ملتے ہی تاریخ کے عجیب وغریب چکر میں برصغیر کی رقابت وعداوت کا تختہ ٔ مشق ملک کشمیر کو بنایا گیااور انگریز نے جاتے جاتے کشمیری قوم کے گلے ایک رستا ہواناسور یعنی مسئلہ کشمیر ڈالا۔اس پیچیدہ تنازعے نے کشمیری قوم کے کس بل گزشتہ سترسال سے نکال دئے۔ اس کو حل کرانے کے لئے پہلے انڈین پرائم منسٹر جواہر لال نہرونے اقوام متحدہ کا رُخ کیا تو عالمی ادارے نے لگ بھگ 28؍ قرار دادیں منظور کر کے کشمیر حل کو استصواب رائے سے مشروط کیا ، مگر مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اس سب کے باوجود آج بھی کشمیر حل کہیں دکھائی نہیں دے رہا بلکہ جنگیں، جنازے ، جیل اور جھوٹ کے درمیان اہل کشمیر کا مسلسل ستیا ناس ہورہاہے۔ ایک جانب ہندو پاک کے حکمران بخوبی واقف ہیں کہ کشمیر حل سب سے پہلے انہی ممالک کے لئے ایک بڑی راحت ثابت ہوگا مگر وہ کوئی متفقہ حل سیاسی نفع نقصان کی وجہ سے ڈھونڈنے پر آمادہ نہیں ۔ دوسری جانب کشمیری لوگ اس دردسر سے گلوخلاصی کے لئے لازوال قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ کشمیرایشو کو جمہوریت اور انسانیت کے دائر ے میں حل کیاجاتا ،بد قسمتی سے ہند و پاک حکومتیں مذاکرات کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہیں۔ اس پالیسی کا سارا خمیازہ کشمیر وادی سے لے کر لائین آف کنٹرول کے قریب رہنے والے آر پارکی آبادیوں اور فوجیوں کو بھگتنا پڑ رہاہے۔ مزیدبرآں کشمیر میں سات دہائیوں سے بدستور انسانی حقوق کی پا مالیاں ہو رہی ہیں۔اس کا اعتراف حال ہی میں چار و ناچار اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی تحریراًکرنا پڑا۔ بہر صورت سوال یہ ہے کہ آخر کب تک کشمیر پر جنگ و جدل میں مصروف رہ کر معصوم بچوں بچیوں کو یتیم کرتے رہیں گے؟ بیواؤں کی فوج بنا تے رہیں گے؟ زخمیوں اور معذوروں کا لشکر بڑھاتے رہیں گے؟ ریاست جموں کشمیر کی سرزمین کب تک قبرستانوں میں بدلتی رہے گی ؟اب پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان انڈیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور کشمیر کا قضیہ گفت وشنید کی میز پر حل کرا نے کی خوش گفتاری کر رہے ہیں، مودی سرکار کو چاہیے کہ اس پیش قدمی کا خیر مقدم کر کے برصغیر کو امن ،خوش حالی اور ترقی کے پٹری پر لانے کے لئے بڑے بھائی جیسا کردار نبھائے اور کشمیر مسئلہ کا کوئی باعزت، پُرامن اور قابل قبول حل نکالے۔
رابطہ :9906574009