خوشحال زندگی پانے کےلئے نیک نیتی کا مظاہرہ لازمی ندامت دِل کادرد ہےاور صاف و پاک زندگی کا طلوع

قیصر محمود عراقی

قرآن کہتا ہے کہ ’’دُنیا کی زندگی تو فقط کھیل تماشہ ہے ،مال اور اولاد تو چند روزہ زندگی کے بنائو و سنگھار ہیںاور جو شخص نیک عمل کرے گا ،اُس کی زندگی دنیا و آخرت میں سرخرو ہوگی۔‘‘جبکہ پیغمبر آخرالزمانؐ کا فرمان ہے کہ’’ کارہائے زندگی کو پائیدا رسمجھ۔نیک نیتی کے مظاہرے سے زندگی بڑھتی ہے اور جس نے لوگوں کی حاجت برآری کی ،اُس نے گویا تمام زندگی خدا کی خدمت میں گذاری۔‘‘بے شک زندگی ایک حسین خواب کی مانند ہے ، جہاں خوشیوں کے میلے ہیں،ہر طرف بہار ہے، چاروں طرف سبزہ ہے،وہیں زندگی موت سے بھی زیادہ مشکل ہے،جس دکھ،درد ،پریشانیوں اور مصائب کے ڈھیر بھی ہیں۔دنیا میں جہاں انسان سکون کی تلاش کا ایک مسافر ہے،وہاں مقاصد کو حقیقت کی شکل دینے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔عصر ِ حاضرمیں بھی جہاں ہر تاریکی میں ڈوبا شخص روشنی کا پیروکار ہے،وہیں ہر شخص دکھوںکا بوجھ اٹھائے تھک چکا ہے، ہر کسی کی زبان پر گلے شکوے ہیں، ہر کوئی حالات کے طوفان سے چور ہوچکا ہے۔پھر بھی ہر شخص اس بے اعتبار زندگی کا متلاشی ہے، جہاں کوئی بھی اعتماد کے قابل نہیں ،جہاں مطلب کے سایے تلے زندگی گذاردی جاتی ہے، جہاں انسانی ضمیر کا کوئی وجود نہیں ، جہاں انسانی ہمدردی کی کوئی قدر نہیں، جہاں سچی بات کہنے والا ذلیل ہوجاتا ہے اور جھوٹ زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ایمانداری کو گالی سمجھا جاتا ہےاور بے ایمانوں کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے۔ رشتوں کی قدر سیکھی نہیں جاتی اور رشتوں کو بے نام بنادیا ہے۔ غریب کی زندگی لعنت وملامت میں گذر جاتی ہے ، امیروں کے دل غرور سے مردہ ہوجاتے ہیں۔اب اس مطلبی زندگی میں انسان جائے تو کہاں جائے ، کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ زندگی میں زندہ رہنے کی ساری امیدیں کھو چکی ہیں مگر پھر ایک بات یاد آجاتی ہے کہ جو بھی ہو جو کچھ بھی ہو ،اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی امیدپرہی قائم ہے، نا امیدی کا مطلب بے رحم دنیا سے ہار جانا ہے۔ نہ جانے کیوں لوگ دُکھوں کا سامنا نہیں کرکے اپنی جان گنوا دیتے ہیں؟ چلیں مان لیں کہ دُکھ حد سے زیادہ ہے لیکن ہم اپنی زندگی میں ہر چھوٹی نعمت کا شکر ادا کریں تو شاید دکھ ہمارا پیچھا چھوڑدیں۔ زندگی کے وقت اور حالات انسان کو زندگی کے مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت دیتے ہیں۔ شاید اس فانی دنیا کو لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے یا کر نہیں پاتے، حالانکہ زندگی کا مختلف لوگوں کی آنکھ سے مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ کتنی تلخ ہے۔ مگر اس کے تلخ ہونے کے باوجود اپنے اردگرد لوگوں پر غور کریں تو کچھ لوگ خوش مزاج ہوتے ہیں، کچھ نرم مزاج،کچھ شرارتی اور کچھ سنجیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ یہ جو لوگ سنجیدہ لوگ ہوتے ہیں یہ تو چلیں زندگی کی تلخیوں سے اُکتائے ہوئے ہیںمگر یہ جو خوش مزاج لوگ ہوتے ہیںجنہیں ہم نان سیریس کہتے ہیں، جو اُن کانٹو ں سے بھرپور راہوں پر دوسروں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ مقصدیہ ہے کہ زندگی مشکل نہیں بلکہ ہمارے اِرد گرد بسنے والے اسے مشکل کردیتے ہیں، لوگ یہ ضرور کہتے ہیں کہ خوش رہومگر خوش رہنے نہیں دیتے۔ زندگی کو مشکل مشکلات نہیں بناتی بلکہ لوگ اور اُن کے رویے بناتے ہیں۔بہر حال زندگی بالکل بھی مشکل نہیں ہے ہم نے اسے مشکل بنا رکھا ہے، ہم نے اپنی بے جا خواہشات کے انبار لگاکر اسے مشکل بنارکھا ہے، لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ زندگی کو آسان کیسے بنایا جائے؟ ہم کبھی اتنی مشکلات کی گرفت میں آجاتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی سننے والا ہو ، کوئی ایسا شخص موجود ہو جس کے سامنے ہم دل کھول کر رو لیں، زندگی میں ہم کبھی ایسے مقام پر بھی آجاتے ہیںجہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں، وہاں صرف ہم اور ہمارا اللہ ہوتا ہے۔ کوئی ماں ،باپ ، بھائی ، بہن اور دوست نہیں ہوتا ، پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیرو کے نیچے نہ زمین ہے نہ سر کے اوپر آسمان، بس ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلاء میں تھامے ہوئے ہے۔ ہم تو زمین پر پڑی مٹی کے ایک ذرے یا درخت پر لگے ایک پتے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، دنیا میں تمام محبتوں کو زوال حاصل ہے تو پھر ہم لوگ اس سے محبت ودوستی کیوں نہیں کرلیتے جو لازوال ہے؟ آدمی اللہ کو یاد بھی تب کرتا ہے جب درد کا ، غرض کا یا پھر مرض کا مارا ہو۔ اس وقت ہم اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھیں ، انہیں سنیں، ان کے پاس بیٹھیںتو معلوم ہوگا کہ زندگی تو ہر ایک کی مشکل ہے مگر ہمارے آس پاس موجود سو فیصد لوگوں میں سے ایک فیصد لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں لگتا ہے زندگی آسان ہے۔ لیکن کیاکسی نے کبھی لوگوں کے پاس بیٹھ کر انہیں وقت دیا ہے ؟کیا کبھی ان سے ان کے زندگی کے تجربوں پر بات کی ہے؟ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ ہر شخص چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، امیر ہے یا غریب وہ کسی نہ کسی پریشانی کا شکار ضرور ہوتا ہے، ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی وجہ سے گل سڑ رہا ہوتا ہے، مختلف لوگوں کی پریشانی پر ردِ عمل مختلف ہوتا ہے۔اس لئے کبھی تنہا بیٹھ کر اپنی زندگی اور اس کے مسائل پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے بھی تمام دَر کھلے ہیں، زندگی نہایت آسان ہے بس اس ذات سے اپنا تعلق مضبوط کرلیںجو ہر چیز پر قادر ہے، جس ذات نے آپ کو اس مسئلے میں مبتلا کیا ہے صرف وہی آپ کو اس میں سے نکالنے پر قادر ہے۔ لہٰذا اسی پر انحصار کریں جس کی مٹھی میں سب ہے، وہ وہی کرتا ہے جو بہترین ہوتا ہے، انسان کی عقل محدود ہے جبکہ وہ جو ہماری زندگی کا مالک ہے اس کی عقل لامحدود ہے ۔ اگر ہم اللہ کی رضا میں اپنی رضا جان کر خوش ہوجاتے ہیں تو اس مشکل وقت میں بھی اللہ ہمارے دلوں میں سکون ڈال دیتاہے اور اگر اللہ سے دور ہوگئے تو ہمیشہ خوار ہی ہوتے رہیں گے۔
رابطہ۔6291697668