مرحوم خورشید حسن خورشیدؔجو حد متارکہ کے دونوں اطراف اور پاکستان کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں کے ایچ خورشید کے مختصر نام سے زیادہ متعارف و مشہور ہیں، ۳ جنوری ۴۲۹۱ء کو آبی گزر سرینگر میں مولوی حسن محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ بیسویں صدی کی تاریخ ساز شخصیت اور عظیم سیاسی رہنما اور بانی ٔ پاکستان مرحوم محمد علی جناح کے معتمد ساتھی اور فرزند کی حیثیت رکھتے تھے۔ موصوف جموں و کشمیر کی تاریخ کے وہ واحد با کردار ،خوددار و ذہین سیاست دان تھے جنہوں نے ساری زندگی اپنا کوئی ذاتی اثاثہ نہیں بنایا اور مرنے کے بعد ان کا جنازہ شہر لاہور کے کرایہ کے مکان سے نکلا۔مرحوم خورشید کے والدگرامی مولوی حسن محمد گلگت مڈل سکول کے صدر معلم تھے ،اس لئے خورشید صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت والد کی نگرانی میں اسی اسکول میں ہوئی۔ البتہ میٹرک کا امتحان ۹۳۹ا میں سری پرتاپ ہائی اسکول سرینگر سے امتیازی نمبرات کے ساتھ پاس کیا اور ۹۴۱اء میں سری پرتاپ ہائی اسکول سرینگر میں مسلم اسٹوڈنٹ یونین نام سے طلبہ تنظیم قائم کر کے اپنی سیاسی و تحریکی زندگی کا آغاز کیا ۔اس کے جھنڈے تلے کشمیر کے نوجوان طبقہ کو ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک مزاحمت منظم کرنے کی ترغیب دی ، وہ بہت مختصر عرصہ میں اپنی خداداد صلاحیتوں ، ذہانت و متانت اور معاملہ فہمی کے باعث جموں و کشمیر کے سیاسی و مزاحمتی افق پر نمایاں ہو کر اُبھرے ، ۱۹۴۴ء میں انہوں نے محمد علی جناح اور فاطمہ جناح کے دورۂ کشمیر کے موقع پر ان سے ملاقاتیں کر کے کشمیر کے منظر نامے پر اُبھرنے والے حالات و واقعات بڑے خوبصورت انداز میں پیش کئے ۔ قائداعظم جناح صاحب اس نوجوان کشمیری کی ذہانت ،معاملہ فہمی اور سلیقہ مندی سے متاثر ہو کر اسی وقت اپنے ساتھ لے گئے اور تحریک پاکستان کے پورے ہنگامہ خیز دور میں انہیں اپنے پرسنل سیکرٹری کے طور پر ساتھ رکھا۔قیام پاکستان کی تحریک عروج پر تھی کہ سرینگر میں خورشید صاحب کی والدہ کی وفات ہوگئیں ، جناح صاحب نے انہیں واپس سرینگر جا کر والدہ ماجدہ کے کفن دفن میں شرکت کی اجازت دے دی مگر خورشید صاحب نے سرینگر جانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سرینگر میں والدہ کے کفن دفن میں شامل ہونے والے بہت لوگ موجود ہیں ،میںاس وقت آپ کو اکیلا چھوڑ کر سرینگر نہیںجا سکتا ،البتہ اکتوبر ۹۷۴اء میں جب جموں و کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف تحریک مزاحمت فیصلہ کن موڑ پر تھی ، اس وقت محمد علی جناح صاحب کے مشورہ پر آپ سرینگر واپس آئے مگر جلد ہی مہاراجہ کی بیوروکریسی اور شیخ عبد اللہ نے مل کر انہیں گرفتار کر کے قلعہ ہری پربت میں قید کر دیا، جہاں سے بعد میں وہ سینٹرل جیل جموں بھیج دئے گئے۔ جموں جیل میں چوہدری غلام عباس صاحب پہلے ہی سے پابند سلاسل تھے ،خورشید صاحب کی جموں جیل میں نظر بندی کے دوران ہی محمد علی جناح کی وفات ہوگئی۔ اس کے باعث کشمیر کا مسئلہ تعطل وجمودکا شکار ہو گیا ۔شیخ عبد اللہ محبوس رہنما چوہدری غلا م عباس اور خورشید صاحب سے سخت خوفزدہ تھے ،اس کے باعث جواہر لعل نہرو سے مشاورت کے بعد ان دونوں زعماء کو سوچیت گڈھ کے راستے آر پار قیدیوں کے تبادلے میں پاکستان بھیج دیا گیا ۔اس سے جموں و کشمیر کا میدانِ سیاست وقتی طور پر شیخ عبد اللہ کے لئے خالی ہو گیا۔
محمد علی جناح کی وفات کے بعد فاطمہ جناح نے خورشید صاحب کو قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر انگلینڈ بھیج دیا ،جہاں سے انہوں نے بیرسٹری کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی ۔ برطانیہ میں دوران تعلیم کے ایچ خورشید نے اپنے ذاتی اخراجات کے لئے جزوقتی طور پر BBCمیں کام کیااورکسی کے سامنے دستِ تعاون دراز نہیں کیا۔ اپنے قیام برطانیہ کے دوران خورشید صاحب نے یورپین ممالک میں کشمیر کاز کی حمایت میں اپنے دوستوں کا ایک اچھا خاصہ حلقۂ اثر بنا لیا تھا جس کے ساتھ وہ زندگی بھر رابطے میں رہے۔ مغربی دنیا میںمسئلہ کشمیر کے حوالے سے آج جو بیداری نظر آتی ہے، اس میں خورشید صاحب کا بنیادی رول رہا ہے ۔ فاطمہ جناح خورشید صاحب اور ان کی بیگم ثریا خورشید کو اپنا فیملی ممبر سمجھتی تھیں ،اسی لئے انہوں نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میری میت کو لحد میں خورشید صاحب اُتاریں گے جس پر من و عن عمل کیا گیا ۔ محمد علی جناح کہا کرتے تھے کہ پاکستان میرے ٹائپ رائٹر ، خورشید حن خورشید اور فاطمہ جناح نے بنایا ہے۔ قائد کی قربت اور تحریک پاکستان کی جدو جہد میں کلیدی رول کے باعث خورشید صاحب کو پاکستان کے تمام حلقوں میں بلا تفریق سیاسی وابستگی ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا ۔بانی ٔپاکستان کا پرسنل سیکرٹری ، تحریک پاکستان کا بانی کارکن اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے صدر لیکن پاکستان اور’’ آزاد کشمیر‘‘بھر میں کہیں بھی ان کا کوئی ذاتی اثاثہ نہ ہونا اور ۲۱ مارچ ۱۹۸۸ء کو ان کا جنازہ لاہور کے کرایہ کے مکان سے نکلنا ،اس دور میں کسی معجزے سے کسی طرح کم نہیں۔گزشتہ ستر سال میں حد متارکہ کے دونوں اطراف جموں و کشمیر کے کئی ایک لیڈروں نے کتنی بے پناہ دولت بنائی اور کس قدر اثاثہ جات جمع کئے اور دولت یا اثر رسوخ کے ذریعے کسی طرح نئی دہلی اور اسلام آباد کو بلیک میل کر کے اقتدار پر قابض ہوتے چلے ، اس کھلے رازسے سب لوگ واقف ہیں ۔خورشید صاحب ایک غیور اور صابر و شاکر آدمی تھے، ان کے ذہن میںکبھی بھی دولت یا اثاثہ بنانے کا تصور تک نہیں پھٹکا ۔بیگم ثریاخورشید کا بیان ہے کہ میں جب کبھی انہیں گھر بنانے کے متعلق کہتی تو وہ ہمیشہ مسکرا کر جواب دیتے سارا پاکستان اپنا گھر ہے،اس گھر کو ہم نے بنایا ہے اور کونسا گھر بنائیں ؟ ۱۱مارچ ۱۹۸۸ کو جب میر پور میں وکلا ء کنونشن سے خطاب کرنے کے بعد عام مسافربس میں سفر کے دوران گجرانوالہ کے مقام پر حادثہ کا شکار ہو کر اللہ کو پیارے ہوگئے تو اس وقت ان کی جیب سے صرف ۵۳؍ روپے نکلے ،جو ان کا کل اثاثہ تھا۔ ان کا پاکستان یا ’’آزاد کشمیر‘‘ کے کسی بنک میں کوئی بیلنس نہیں تھا۔
خورشید صاحب مرحوم نہایت با وقار وجاہت اور کشمیر کے روائتی حسن و و قار سے مالا مال تھے ،خوش شکل ،خوش مزاج ، نرم دل ، دوراندیش، معاملہ فہم ،خوبصورت اُجلا لباس زیب تن کرنے والے،سادگی وقناعت کے مجسمہ ،ذہین و زیرک سیاست داںناوردانش ور تھے۔ اپنا پریا اُن کے خوبصورت چہرے کو دیکھے تو دیکھتا ہی رہ جائے ،وہ بولیں تو کانوں میں رس گھولیں ،مسکرائیں تو چاندنی بکھیریں،اعتماد اور توکل علی اللہ کی جھلک ہمیشہ ان کے چہرے سے جھلکتی تھی ،انہیں کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی اور بہت کم لوگوں کو ان سے شکوہ ہو گا کیونکہ وہ سب کے عزیز اورمشفق دوست تھے ۔وہ اقبال کے اس شعر کے حقیقی مصداق تھے ؎
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل وپاک باز
انہیں اپنے وطن اور وطن کے ہر خاص و عام کے ساتھ غیر معمولی محبت و دلچسپی تھی ،ان کی ساری زندگی تحریک کشمیر کے لئے وقف تھی۔ وہ اسی کاز کی خاطر ساری زندگی دنیا بھر میں سرگرم عمل رہے اور اسی جدو جہد میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔فاطمہ جناح کے غیر معمولی اصرار پر انہوں نے ا’’ٓزاد کشمیر‘‘ کی صدارت قبول کی تو مظفر آباد میں ان کا ایوان صدارت صرف معمولی دو کمرہ پر مشتمل تھا جس کے عقب میں ان کی پسندیدہ سبزی ساگ کی کیاریاں تھیں۔ روایت ہے کہ ایک دن خورشید صاحب مظفر آباد کے سرکاری ہسپتال کے دورے پر گئے تو وہاں جا کر پتہ چلا کہ ہسپتال میں فریج نہیں اور بعض ضروری انجکشن قریب میں کسی آدمی کے گھر کے فریج میں رکھے جاتے ہیں، جہاں سے بوقت استعمال لائے جاتے ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ خورشید صاحب نے فوراً حکم دیا کہ میرے گھر میںجو فریج ہے وہ اسی وقت لاکر یہاں رکھ دو تاکہ ہسپتال کے عملے اور مریضوں کو کوئی دقت نہ ہو ۔شام کو جب ان کی بیگم نے کہا کہ گھر میں فریج نہیں ،کھانے پینے کی چیزیں اور سبزیاں کہا ںرکھیں گے،تو خورشید صاحب نے ساگ زارکی کیاریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،فریج کی کیا ضرورت ہے ؟یہ تازہ سبزیاں توڑ کر کھائو،۱۹۴۶ء میں وہ جب ’’آزاد کشمیر ‘‘کی صدارت سے مستعفی ہو کر لاہور میں کرایہ کے مکان میں قیام پذیر تھے تو معمولی سرکاری نرخ پر ایک پلاٹ دستیاب ہو رہا تھا مگر مکان کی تعمیر کیلئے سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے پلاٹ لینے سے انکار کر دیا ۔ایک دفعہ سردار عبد الرب نشتر ؔگورنر پنجاب نے خورشید صاحب سے پوچھا لاہور میں کہاں رہتے ہو؟ خورشید صاحب نے کہا مال روڈ پر کرایہ کے مکان میں ۔ گورنر پنجاب یہ جواب سن کر حیران ہوگیا کہ بانی ٔپاکستان کا پرسنل سیکرٹری تحریک پاکستان کا بانی کارکن اور وہ کرایہ کے مکان میں ر ہے؟گورنر موصوف نے اسی وقت لاہور میںایک شاندار متروکہ کوٹھی خورشید صاحب کے نام الاٹ کردی ،لیکن اس کوٹھی میںامرتسر کا کوئی گھرانہ غیر قانونی طور پر قابض تھا، جسے خورشید صاحب نے سرکاری مداخلت کے ذریعے بے دخل کرانا مناسب نہ سمجھا ، یوں وہ کوٹھی بھی انہیں قیام کے لئے دستیاب نہ ہوسکی ۔وہ جب ’’آزاد کشمیر‘‘ کے صدر تھے تو ان کی بیگم ثریا خورشید نے ایک دفعہ جب اُن سے کہا کہ آپ لاہور میں اپنا مکان تو خالی کروالو ، مگر خورشید صاحب نے مسکرا کر جواب دیا میں اپنی سرکاری پوزیشن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔
راقم نے اپنے میر پور کے قیام کے دوران (۱۹۸۲ء تا ۱۹۸۶ء ) خورشید صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ، میری ان سے بلا تکلف ملاقاتیں و گفتگو ئیںہوتی رہیں ۔ میں اس وقت یہی کوئی تیس سال سے بھی کم عمر کے پیٹے میں تھا ،مگر خورشید صاحب کے پاس بیٹھ کر کبھی چھوٹے پن کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔وہ جب میر پور آتے تو ان کا قیام بیرسٹر عبد المجید صاحب کے گھر پر ہوتا تھا ،وہیں میری اُن سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیال کی مجلسیں ہوتی تھیں ۔وہ مجھے ایک مشفق مربی کی صورت میں نصیحت کرتے اور محبت و خلوص کا مظاہر ہ کرتے تھے۔ ان کے بے لوث خلوص ،محبت اور شفقت نے مجھے ان کا گرویدہ بنا کر رکھ چھوڑا۔ ان کا یہی خلو ص اور کھلا پن ایک دفعہ مجھے ان کی رہائش گا ہ مال روڈ لاہور کھینچ گیا ،کافی تلاش کے بعد جب میں ان کے کرایہ کے معمولی گھر کے دروازے پر پہنچا تو دروازے پر جو تختی لگی تھی اس پر لکھا تھا :خورشید حسن خورشیدؔ،بارایٹ لا۔’’ آزاد کشمیر‘‘ اور پاکستان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی زندگی کی ٹھاٹھ باٹھ ،عالی شان کو ٹھیوں اور نئے نئے ماڈل کی خوبصورت قیمتی گاڑیوں کو دیکھ کر بظاہر یقین نہیں آرہا تھا کہ کرایہ کا یہ معمولی گھر بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے پرسنل سیکرٹری ،تحریک پاکستان کے بانی کارکن ،’’آزاد کشمیر‘‘ کے سابق صدر اور ممتاز کشمیر سیاست دان خورشید حسن خورشید کا ہے۔خورشید صاحب اور ان کے اہل خانہ کے اتھ اس روز میری ملاقات دو گھنٹوں تک رہی ،ان کی بیگم محترمہ ثریا خورشید اور بیٹے خرم خورشید اور بیٹی یاسمین کو جب میرے متعلق یہ پتاچلا کہ یہ شخص ابھی کوئی تین سال قبل راجوری سے کنٹرول لائن کی اس طرف آکر میر پور ’’آزاد کشمیر‘‘ کا شہری بنا ہے تو وہ سب لوگ مجھ سے گھل مل کر کچھ ایسے مانوس ہو گئے جیسے میں ان کے گھر کا ہی کوئی فرد تھا۔بیگم ثریا خورشید ایک تعلیم یافتہ انتہائی مہذب اور باذوق گھرانے کی خاتون ہیں۔ الحمد اللہ وہ ابھی بقیدحیات ہیں اور ایڈن گارڈن لاہورمیں رہائش پذیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت منداور پُرمسرت زندگی عطا فرمائے۔(آمین)
بیگم ثریا خورشید ایک بہترین ادبیہ اور مصنفہ ہیں ،ان کا ادبی ذوق بڑا بلند اور تحریر میں بلا کی روانی و سلاست ہے۔ وہ جب گفتگو کر رہی تھیں تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کشمیر یا جموںنژادخاتون ہیں،وہ فاطمہ جناح کی پرسنل سیکرٹری بھی رہی ہیں ۔ان کی تصانیف میں ’’یادوں کی کہکشاں ‘‘،’’بانہال کے اس پار‘‘، ’’امل تاس کا پیڑ‘‘،’’چناروں کے سائے‘‘، ’’تاریخ کے جھرو کے‘‘، اور’’ میرے جموں کی یادیں‘‘ خاص طور قابل ذکر اور پڑھنے کے لائق ہیں۔
۱۱؍ مارچ ۱۹۸۸ء کی شام کو جب میں نے ریڈیو پاکستان سے خورشید صاحب کی الم ناک موت کی خبر سنی تومیں حواس باختہ ہوگیا اور دیر تک روتا رہا گو کہ اس حادثے کو بیتے آج تیس سال ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود جب بھی آپ یاد آتے ہیں یا کسی جگہ دوستوں کی محفل میں ان کا ذکر کرتا ہوں تو بے ساختہ آنکھوں سے فرط ِعقیدت میںآنسوچھلک پڑتے ہیں جنہیں روکنے میں مجھے اکثربڑی دقت ہوتی ہے۔ بقول غالب ؔ ؎
دل ہی تو ہے سنگ وخشت نہیں درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
خورشید صاحب مرحوم کا پاکستانی حکمرانوں اور اہل اقتدار کی قصیدہ خوانی ومصلحت پسندی سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا، جس طرح ہمارے یہاں کے بکاؤ سیاسی لیڈر ظلم و جبر کی کلہاڑی کے دستے بن کر صرف اقتدار کے لالچ میں اپنے ہم وطنوں پر قیامتِ صغریٰ برپا کرنے میں مستعد رہتے ہیں ۔یہی حال’’ آزاد کشمیر‘‘ کے ابن الوقت سیاسی لیڈروں کا بھی ہے جو اقتدار اور مراعات کی خاطر اسلام آباد میں تختِ شاہی کے مالک ہر حکمران کی قصیدہ خوانی کے عادی ہیں،مگر خورشید صاحب مرحوم ان سب لوگوں سے مزاجاً بالکل مختلف تھے، حق گو ،حق پرست اور غیور وخوددار آدمی تھے۔ شاید اسی وجہ سے پاکستان کا اقتدار ی ٹولہ اور بکاؤ میڈیا کے ایچ خورشید کی صاف اُجلی زندگی کو کوئی اہمیت نہ دیتا تھا ،جب کہ ’’آزاد کشمیر‘‘ اور پاکستان کے تمام مخلص سیاسی وعلمی اور تحریکی حلقوں میں ان کا بڑا حترام پایا جاتا تھا اورآج بھی یہ حلقے موصوف کو احتراماً خورشید ملت کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ بلاشبہ خورشید صاحب مرحوم بالفعل خورشید ملت تھے ۔ا ُ ن کی مثالی زندگی پر اسلامی تعلیمات اور حُب الوطنی کی وہ گہری چھاپ نقش جس نے ان کو موت کے بعد بھی زندہ رکھا ہو اہے لیکین آہ ع
اب کہاں ڈھونڈیئے انہیں چراغِ رُخِ زیبا لے کر
نوٹ :مضمون نگارچیئر مین الہدیٰ ٹرسٹ راجوری ہیں۔
رابطہ نمبر:7006364495