عصر ِحاضر میں پوری دنیا کے محروم لوگوں میں اپنی ذمے داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی ، کمزوری یا بزدلی کے باعث خود کشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے وادیٔ کشمیر میں بھی خودکشی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے،ایک اطلاع کے مطابق گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سرینگر میں ایک لڑکی سمیت 2افراد نے جہلم میںچھلانگ لگاکر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جس میں لڑکی کو بچالیا گیا ۔ حسر تناک پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ خود کشی کی ان وارداتوںکو یہاں کی سوشل میڈیا نے ایک تماشا بناڈالا ہے۔ایسے ایسے کومِنٹس دیئے جاتے ہیںکہ انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خودکشی حرام موت ہے جو کہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں۔کیونکہ انسان اپنی زندگی کا خود مالک نہیں ہے بلکہ امین ہے،اُس نے زندگی حاصل نہیں کی ہےبلکہ اُسے عطا کی گئی ہے، یہ اس کے پاس خالق کائنات کی امانت ہے اورہر ممکن حد تک زندگی کی حفاظت کرنا اُس کی ذمہ داری ہے۔اسی لئےاسلام کی نگاہ میںخود کشی بہت بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے،ایسا گناہ انسان کو اس دنیا سے بھی محروم کرتا ہے اور اخرت سے بھی۔خیر! موجودہ دور میں خودکشی کے کئی اسباب ہوتے ہیں،جن میںایک بڑی وجہ بے روز گاری، معاشی بدحالی، مہنگائی ،امتحان میں ناکامی ،محبت میں بے وفائی ،گھریلو تنائواور ازدواجی جھگڑاہے، جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔ ماہرین کے مطابق تنہائی، چڑچڑا پن، شرمندگی،نشہ آور اشیا کا استعمال اور ایسی باتیں جو شرمندگی یا تکلیف کاباعث بنیں، انسان کو ذہنی بیماریوں کی طرف دھکیلتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ دماغی خرابی کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جو طویل بیماری کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں۔ بیماری بھی دراصل دماغی توازن درہم برہم کر دیتی ہے، اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کرنے والوں کا تعلق بھی دماغ کے عدم توازن ہی سے ہوتا ہے۔بغور جائزہ لیا جائےتویہ در اصل زندگی کے مسائل اور مشکلات سے راہِ فرار اختیار کرنا ہے اورآزمائشوں اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ نکلنے کی ایک غیر قانونی اور ایک غیر انسانی تدبیر ہے۔ بدقسمتی سے ایمان سے محرومی یا کمزوری اور اپنی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی کے باعث اس وقت پوری دنیا میں خودکشی کی وارداتوں میںبڑھوتری ہورہی ہے۔مغربی ممالک میں سماجی نظام کے بکھراؤ کی وجہ سے عرصہ دراز سے خودکشی کا رجحان کافی حد تک بڑھ چکا ہے،اِن ممالک میں سماجی نظام کے بکھراؤ کی وجہ سے خودکشی کو انسان کا نجی حق تسلیم کیا جاتا ہے، جو لوگ طویل عرصہ سے بیمار ہوں، ان کو بعض مغربی ملکوں میں مہلک انجکشن لگوا کر مرجانے کی قانونی اجازت حاصل ہوگئی ہے ، بلکہ ان کے ورثاء اور رشتے داروں کو بھی اس کی اجازت دے دی گئی ہے اور اِسے ’’ قتل بہ جذبۂ رحم‘‘ کا خوبصورت نام دیا گیا ہے۔در حقیقت خود کشی بنیادی طور پر ایمان کی کمزوری یا اس سے محرومی کی وجہ سے کی جاتی ہے، جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو، یقین کرتا ہو کہ اللہ دشواریوں کی سیاہ رات سے آسانی اور اُمید کی صبحِ نو پیدا کرسکتا ہے، جو شخص تقدیر پر ایمان رکھتا ہو کہ خوش حالی اور تنگ دستی اور آرام و تکلیف اللہ ہی کی طرف سے ہے، صبر و قناعت انسان کا فرض ہے، اور جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو کہ زندگی کے مصائب سے تھکے ہوئے مسافروں کے لئے وہاں راحت و آرام ہے اور زندگی کی آزمائشوں سے راہِ فرار اختیار کرنے والوں کے لئے اللہ کی پکڑ اور عذاب ہے ، وہ کیسے مشکل وقتوں میں اللہ کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھنے یا بارگاہِ ربانی میں دست ِسوال پھیلانے اور اللہ کی رحمت سے اُمید رکھنے کے بجائے مایوس ہو کر اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا؟ضرورت اس بات کی ہے کہ خودکشی کے اخلاقی اور سماجی نقصانات لوگوں کو بتائے جائیں، معاشرے میں لوگوں کی تربیت کی جائے کہ وہ تنگ دستوں اور مقروضوں کے ساتھ نرمی اورتعاون کا سلوک کریں، گھر اور خاندان میں محبت اور پیار کی فضا قائم کریں ، رسم و رواج کی جن زنجیروں نے معاشرے کو زخمی کیا ہوا ہے، انہیں کاٹنے کی کوشش کریں، شادی ، بیاہ کے مرحلوں کو آسان بنائیں اور جو لوگ ذہنی تناؤ سے دو چارہو اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہوں، ان میں جینے اور مسائل و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کریں۔ساتھ ہی یہاں کی سرکاری انتظامیہ پر بھی لازم ہے کہ ایسے سوشل میڈیا سائٹس کی بھرپور خبر لیں ،جو خود کشی کی ان وارداتوں کو اپنے غلط اور بے جا طرزِ عمل سے محض ایک تماشہ بناکر لوگوںکو ایسے مخمصوںڈالتے ہیں،جس میں عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی کوئی بات ہی نہ ہو۔