معاشرت
انیلہ افضال
آج ہماری تہذیب، ہمارا تمدن، انسانی تاریخ کے اس موڑ پر آ کھڑا ہوا ہے ،جس سے آگے صرف اندھیرا ہے۔اس سب میں الیکٹرانک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن اس کو پھیلانے میں سوشل میڈیا کی خدمات سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں، کیونکہ الیکٹرانک میڈیا تو ایک بار سب دکھا کر رخصت ہو جاتا ہے، سوشل میڈیا، کچھ چھوٹے چھوٹے چنکس کی صورت میں، کبھی ریویو کی شکل میں تو کبھی یاداشت کے طور پر اس خود نمائی کے ناسور کو چھیڑتا ہی رہتا ہے۔آج بیشتر نوجوان نمود و نمائش کے شکنجے میں جکڑے ہوئےہیں۔جس کے باعث وہ ہمیشہ احساس محرومی اور کم مائیگی کا شکار رہتے ہیں۔ نمودو نمائش کے چکر میں دن اور رات کا چین و سکون برباد کررہے ہیں، چاہے اس کے لیے انھیں خود کتنا ہی بے چین رہنا پڑے۔ آسائشات کی کمی کا شکوہ ہر وقت ان کی زبان پر رہتا ہے۔ اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی خواہش ہمہ وقت ان کے دل میں کروٹ لیتی رہتی ہے۔ زندگی کی آسائشوں کو حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طریقہ کار اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جس کے باعث کئی سنگین جرائم وجود میں آتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جو لوگ حد سے زیادہ نمود و نمائش کی طرف مائل ہوں ،ان کی اولاد کی تربیت بھی اس تصنع کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔
نوجوان کسی بھی معاشرے میں امید ہوتے ہیں۔ معاشرہ اپنے نوجوانوں پر انویسٹ کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ نسل اپنے معاشرے، اپنے ملک ، اپنی تہذیب اور اپنے کلچر کو نئی بلندیوں تک لے جائے گی، مگر افسوس! آج کے نوجوان کو ٹک ٹاک سے ہی فرصت نہیں۔وہ اپنے موبائل ٹیلی فونوں کے کیمروں کا رخ اپنی طرف کر کے اپنی ہی تصاویر کھینچ کھینچ کر انھیں مختلف زاویوں سے جانچتے ہیں، جو تصویر پسند نہیں آتی اسے ضایع کر دیتے ہیں اور جو سوئے اتفاق اچھی لگتی ہے اسے فوراً share کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ فون اور فیس بک پر۔ خود نمائی کا یہ رجحان نئی نسل کو ایک ایسی سمت لے کر جا رہا ہے ،جہاں انھیں اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ دکھاوے کی دھول میں اَٹے جارہے ہیں۔والدین جب بچے کوا سکول میں داخلہ دلواتے ہیں تو اس وقت بھی خود نمائی ساتھ نہیں چھوڑتی اور اپنی اوقات سے بڑےا سکول کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ تو ایسا بچہ جب ان حالات میں جوان ہو گا تو اس میں اس کاعکس ضرور آئے گا۔ وہ لباس ،کھانے پینے،گھومنے، ہر چیز میں خود نمائی کا پہلو دیکھتا ہے۔یہ خواہش فی نفسہ کوئی
بُری صفت نہیں بشرطِ کہ اس میں غرور اور منفی پہلو اُجاگر نہ ہوں۔ اگراس کی خواہش کی درست راہنمائی کی جائے، اسے صحیح طریقے سے سیراب کیا جائے تو یہ بہترین نتائج کاحامل ہوگا،لیکن افسوس اس سے افادیت کے بجائےمنفی رجحان دیکھنے میں آرہے ہیں۔فیس بک ہو یا فیشن انڈسٹری خود نمائی کے جذبے کوتسکین فراہم کرنے کےدیدہ زیب پلیٹ فارم ہیں۔ فیشن انڈسٹری دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ رہی ہے۔ کاسمیٹکس انڈسٹری اربوں ڈالرز کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ سگریٹ، کولڈ ڈرنکس، جوتے، بیگز، فون ، کار، ہر چیز سٹیٹس سمبل بن چکے ہیں۔ اس دوڑ میں اقدار کہیں پیچھے چھوٹ گئے ہیں، تہذیب کھو گئی ہے اور کلچر مسخ ہوکر رہ گیا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں عزت و احترام اور اعزاز و سربلندی کا واحد ذریعہ مال و دولت، عہدہ، اختیار اور مادی وسائل کی کثرت رہ گیا ہے۔ اخلاق کی بلندی،کردار کی پختگی، شرافتِ نفس اور تقویٰ و طہارت کی کوئی قدر و منزلت نہیں رہی ہے۔البتہ اتنی بات تو پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ یہ خود نمائی کا زمانہ ہے۔ نوعمری میں دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بالوں کا سٹائل بدلنے کی عادت یا بالوں کو بار بار ماتھے پر جھٹکنا، بات بات پر ہاتھ نچا کر نئی رولیکس نمایاں کرنا یا نئی ٹائی سے کھیلنا یا نیا جوتا دکھانے کے لیے ٹانگ پے ٹانگ رکھ کے بیٹھنا، کالا چشمےپر کئی دن تک سٹیکر لگائے رکھنا ، اب ان حرکتوں میں اسٹائل پروان چڑھ گیا ہے۔فی زمانہ اولین شرط یہ ہے کہ ہم خود نمائی (Self Projection) سے دوبارہ خود آگاہی (Self actualization) کی طرف سفر کریں اور یہ کام ہم جتنا جلد کرلیں اُتنا اچھا ہے ورنہ نہ ہمیں تاریخ معاف کرے گی اور نہ ہی آنے والی نسلیں۔ خود نمائی کا شوق نیکی کے اجر کو کھا جاتا ہے۔ اپنی اچھائی کو خود سے ظاہر نہ کرو، اچھائی خو آپ ہی ظاہر کردیتی ہے۔خود نمائی کی سب سے گھٹیا قسم ، عہدوں کی نمائش کرنا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کوئی سماجی تقریب ہو یا کوئی ادبی تقریب، کسی تعلیمی ادارے کا سالانہ جلسے ہو یا کسی سیاسی جماعت کا عوامی مظاہرہ ہر جگہ یہ نظر آئے گی۔ مہمانانِ گرامی کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کے عہدوں کا تعارف بھی کروایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد غالباً ًحاضرین اور سامعین کو کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا کرنا ہوتا ہے۔ آج کا خود پسند نوجوان جب کل ان عہدوں کا امین بنے گا، تو کیا کچھ نہیں کر گزرے گا۔ اللہ ہماری ملت کے نوجوانوں کو وہ بال و پر عطا فرمائے جو شاہین کو بھی شرما دیں۔ آمین