بے شک خود غرضی میں اچھائیاں اس طرح مدغم ہوجاتی ہیں جیسے سمندر میں ندیاں۔ خودغرض کی غرض کبھی پوری نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کو مُردہ بنادیتی ہے۔چنانچہ عصر حاضر میںدنیا بھر کے لوگ جس رفتارکے ساتھ ترقی کی دوڑ میں مصروفِ عمل ہے،اُسی رفتار کے ساتھ یہ لوگ انسانیت کی تکریم کو نظر انداز کررہے ہیں۔ نسل پرستی، طبقاتی تقسیم، مذہبی تعصب اور سیاسی مفادات کی خاطر انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ جدید سوسائٹی میں خود غرضی اور مفاد پرستی نے انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں انسانیت کے لئے ہمدردی اور محبت کی جگہ نفرت اور تعصب نے لے لی ہے اوراس سنگین صورت حال کے باعث معاشروں میں بگاڑ اور عدم مساوات کا سلسلہ فروغ پاچکا ہے۔آج کے دور میںتقریباً دنیا بھر کے زیادہ تر ملکوں میںنسل پرستی ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، مختلف حصّوں میں لوگ اپنی رنگت، نسل یا قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس قسم کا تعصب انسانی وقار کی نفی اور معاشرتی تفریق کا باعث بنتا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق معاشرتی استحکام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ امیر طبقہ وسائل پر قابض ہو جاتا ہے، غریب طبقہ کو بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ عدم مساوات کی صورت حال انسانیت کی تکریم کے اصول کے بالکل خلاف ہے۔مذہبی بنیادوں پر امتیاز اور تعصب کے باعث مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کے درمیان نفرت اور دشمنی بڑھ رہی ہے، جس سے معاشرتی تانا بانا بکھر رہا ہے، جبکہ مذہبی اختلافات کو جنگ اور تشدّد کا جواز بنا کر انسانیت پر شب و ستم ڈھایا جارہا ہے۔سیاسی مفادات کے حصول کے لئے بھی انسانی حقوق کو پامال کرنا عصر حاضر کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جنگوں، سیاسی طاقت کے کھیل اور خود غرضی کی بنا پر معصوم انسانوں کی جانیں ضائع کی جا رہی ہیں اور انہیں انسانی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ انصاف انسانیت کی بنیاد ہے،جس کو برقرار رکھنے کے لئے بہر حال ہمیں اپنے معاملات میں ترجیح دینی چاہیےاور ضروری ہے کہ ہر انسان کو بلا تفریق انصاف ملے، چاہے وہ کسی بھی مذہب، نسل، یا قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ انصاف کے بغیر معاشرتی توازن اور امن کا قیام ممکن نہیں،جبکہ محبت اور ہمدردی ہی وہ عناصر ہیں جو انسانی دلوں کو قریب لاتے ہیں۔مگر افسوس!جدید معاشروںمیں خود غرضی اور مفاد پرستی نے انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اس خود غرضی نے انسانی تعلقات میں محبت اور ہمدردی کو بہت پست کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی روابط کمزور ہو رہے ہیںاوریہ مسئلہ انسانیت کی تکریم اور اجتماعی فلاح و بہبود کے راستے میں بڑی رکاوٹیںڈال چکا ہے۔ ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر انسانیت کے اصولوں کو زندہ کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ضرورت مندوں کی مدد کرنا، دُکھ درد میں شریک ہونا اور دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہونا انسانی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے۔ انسانی وقار کا احترام ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنا چاہیے، چاہے ہماری سوچ، عقائد یا ثقافتیں مختلف ہوں۔ باہمی احترام سے معاشرتی ہم آہنگی اور امن کو فروغ ملتا ہے۔باہمی تعاون سے نہ صرف فرد کی بلکہ پورے معاشرے کی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ اس لئےہمیں اپنی نسلوں کو انسانی حقوق، اخلاقیات اور معاشرتی ذمّہ داریوں کی تعلیم دینی چاہیے۔ شعور کی بیداری سے لوگ ایک دوسرے کی عزت کرنے، انصاف فراہم کرنے، اور محبت و ہمدردی کو فروغ دینے کے قابل بن سکتے ہیں۔اب یہ ہماری ذمّہ داری ہے کہ ہم ان مسائل کا شعور پیدا کریں اور اپنی زندگیوں میں انسانی اقدار کو ترجیح دیں ۔اس عمل سے نہ صرف فرد بلکہ پورا معاشرہ امن، خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ تکریمِ انسانیت عصر حاضر میں نہ صرف ایک اخلاقی ذمّہ داری ہے بلکہ یہ عالمی امن، عدل اور انصاف کے قیام کا بنیادی ستون بھی ہے۔ اگر ہم انسانیت کی تکریم کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دیں اور اس پر عمل کریں تو ہم ایک بہتر، پُرامن اور انصاف پر مبنی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔