پیچیدہ اور لاینحل مسائل کے بھنور میں کچھ ایسے بھی مسائل ہیں جن کی پیدائش اور پرداخت کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان اور بحیثیت کشمیری ہم بذات خود ہیں۔ آفاقی حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کا زوال جنگ میں شکست سے نہیں ہوتا ہے، نہ ہی قومیں نسل کشی سے ختم ہوتی ہیں، کوئی قوم اُس وقت اپنا وجود کھو دیتی ہے جب وہ اپنی تہذیب اور تشخص سے لاعلم ونابلد ہو۔ اس لیے کسی بھی قوم کو مرعوب کرنے اور حتمی شکست سے دوچار کرنے کے لیے پہلا قدم یہی ہوتا ہے کہ اُس کی نوجوان نسل کواپنے دین، تہذیب ، کلچر اور تواریخ سے دور کیاجائے۔ کشمیری مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہو تارہا ہے۔ اگر چہ عصری علوم میں ہماری نسلیں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے البتہ دینی علوم سے اس قوم کے نوجوان نسل روز بروز دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ اسلامی تاریخ اور سیرت النبیؐ سے ہم میں سے متعدد لوگ نابلد ہیں۔ پھر جب مقامی سطح پر ریاست جموں وکشمیر کی بات ہوتی ہے، اس کے متنازعہ ہونے پر نہ صرف تمام کشمیریوں کو یقین ہے بلکہ یقین کامل کے ساتھ اس کے حل کے لیے جدوجہد میں تن، من اور دھن سے شامل ہیں۔البتہ پروپیگنڈے کی سطح پر ہم اپنا اصل بیانیہ کھو رہے ہیں۔مباحثوں اور مذاکروں میں غیروںکے سامنے مجموعی طور پر ہم اپنی دلیل رکھنے میں ناکام ہوتے جارہے ہیں۔حالانکہ ہمارے دل میں حق پر ہونے کا مکمل اطمنان ہوتا ہے اس کے باوجود جب ہمارا حریف آئے روز نئے بیانیہ پیش کرتا ہے تو ہم اعتماد کے ساتھ اپنی جدوجہد کے حق میں مضبوط دلیل اس کے سامنے رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اگر چہ ہمارے دانشور طبقہ میں لاتعداد لوگ ایسے بھی ہیں جو دنیا کی بڑی بڑی فورموں میں کشمیر کاز کے تعلق سے مضبوط دلائل کے ساتھ بات کرتے ہیں لیکن جو قوم برسر جدوجہد ہو، وہاں ایک مخصوص طبقے کا حالات، تاریخ اور تحریک کے مختلف مراحل کی واقفیت رکھنا ہی کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ اُن کی نسلوں کے ذہن میں اُن کے ماضی، حال او رمستقبل کی تاریخ، نشانے اور خانے پتھر کی لکیر کی طرح کنندہ ہونے چاہیے۔ اُنہیں اپنی تاریخ ، اپنی جدوجہد کے مدوجزر اور اپنے آس پاس ہونے والے سیاسی، سماجی اور عالمی سطح کے تمام اہم واقعات، سانحات اور حادثات پر گہری نظر ہونی چاہیے۔اس کے لیے لازمی ہے کہ ہمارے یہاں کا تعلیمی سسٹم ایسا ہو جو نوجوانوں کو اپنی ہسٹری سے واقف کرائے، ہمارے والدین ایسے باہوش اور ذی فہم ہونے چاہیے جو اپنے بچوں کو ہر حال میں اپنی تاریخ یعنی ماضی کے تلخ وشرین سے باخبر رکھنے کا بندوبست کریں تاکہ مستقبل کی تعمیر میں تجربات سے استفادہ کیا جاسکے ۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں رائج تعلیمی نصاب میں ہماری تاریخ کو یا تو شجر ممنوعہ بیایا گیا یا اسے بوجوہ مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے۔ تاریخ کی ایسی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں جن کو بڑے ہی منصوبہ بند طریقے سے غالب قوت نے ترتیب دیا ہوا ہے اور اب اس میں آر ایس ایس سوچ پیوست کی جارہی ہے ۔ ہماری لسانی اور تہذیبی جڑوں کو سنسکرت اور دوسری اجنبی چیزوں سے ملاکرہمیں از سر نو راہ ہدایت سے ہٹا کراُسی جہالت میں دھکیلنے کے وہی اوچھے حربے بر وئے کار لائے جا رہے ہیںجن کی تاریکیوں سے نکلنے کے لیے ہمارے اسلاف نے بے تحاشہ پاپڑ بیلے ہیں۔چونکہ اسکولوں اور کالجوں کا نصاب تبدیل کرنے کا عوام کو کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے ، البتہ تعلیمی سسٹم میں اگرقوم کے بہی خواہ اساتذہ اپنی صحیح تاریخ سے بہرہ مند ہوں تو وہ رائج الوقت نصاب کو پڑھاتے وقت ساتھ ساتھ نئی نسلوں کو اپنی حقیقی تاریخ سے باخبر کراسکتے ہیں۔ہمارے یہاں پرائیوٹ تعلیمی ادارے اس سلسلے میں نمایاں خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی ہسٹری اور تاریخ سے اُسی حد تک واقف ہے جس حد تک اُنہوں نے اپنی تعلیم وتدریس کے دوران پڑھا ہے، یعنی وہ بھی مسخ شدہ تواریخ کو پڑھ چکے ہیں اور اصلیت سے اکثروبیش تر بے بہرہ ہوتے ہیں۔ اس سے باہر صحیح تاریخ جاننے کی یا تو وہ کوشش ہی نہیں کرتے ہیں الا ماشاء اللہ قلیل التعداد اہل علم ایسا اپنے ذوق سے کر تے ہیں۔صحیح اور حقائق پر مبنی علوم پر دسترس حاصل کرنا ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملی ذمہ داری بھی۔ ہم اپنے دین اور ملت کی خدمت اُس وقت تک نہیں کرسکتے ہیں جب تک نہ ہمیں اپنی تاریخ اور اپنے ماضی کی خبر ہو۔ہمارا اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ ریاست جموں وکشمیر میں ہم بحیثیت مسلم اپنے غصب شدہ سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے انتھک جدوجہد کررہے ہیںاور اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہمارے لیے لازمی ہے کہ ہم اسلام کے ساتھ ساتھ اپنی ملی و مقامی تاریخ سے بھی بخوبی واقف ہوں۔
عشرہ مبشرہ میں شامل صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضر ت زبیر بن عوام ؓ نے بچپن میں اپنے بیٹے عُروہ ؒبن زبیرسے از راہِ نصیحت فرمایا: ’’تمہیں کیا ہواہے کہ علم حاصل نہیں کرتے، اگر آج کے لوگوں میں تم چھوٹے ہو، توکل کے لوگوں میں تم بڑے ہوں گے اور کسی بزرگ آدمی کے لیے جاہل ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔‘‘عروہ بن زبیرؒ نے اپنے والد صاحب کی یہ فہمائش اور دوربینی گرہ میں باندھ لی اور پھر اپنے زمانے کے مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ کی صف ِجلیلہ میں شامل ہوئے۔ حضرت زبیر بن عوامؓ نے بظاہر یہ نصیحت اپنے بیٹے کے دل میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے کی تھی، البتہ اس دوراندیشی میں روز قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے سبق موجود ہے۔ اگرہم حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو تاسف کے ساتھ واضح ہوگا کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل میں نصابی کتابوں سے باہر مطالعے کا شوق دن بدن ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کے پاس دنیاوی علوم کی بڑی بڑی ڈگریاں ہوتی ہیں اور عصری علوم میں وہ کافی مہارت رکھنے والے ہوتے ہیں ،البتہ یہ تشویش ناک بات بھی اپنی جگہ دُرست ہے کہ یہ نئی پود دینی علوم، اسلامی تاریخ، اور اپنی ریاست کی تاریخ کا مطالعہ کرنے میں سرد مہری کا مظاہرہ ہی نہیںکرتی بلکہ اس بابت ایک غیر محسوس انداز میںا حسا س کہتری سے جھوج رہی ہے۔
آنے والے وقت کے لیے اگر آج کی نوجوان نسل تیاری نہیں کرے گی تو پھر لازمی طور پروہ اپنی کم علمی کی وجہ سے نہ ہی اپنے مبنی برحق جائز مؤقف کا دفاع کرسکیں گے اور نہ ہی اپنی آنے والی نسلوں کو دوسری تہذیبوں کا دلدادہ بننے سے بچا پائیں گے۔ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سراسر ایک علمی دعوت ہے، آپؐ پر وحی کا آغاز بھی’’اقراء‘‘ سے ہوا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک ایک علمی تحریک ہے۔ اسلامی دعوت و تحریک کا دارومدار علم حاصل کرنے اور پڑھنے پڑھانے پر ہے۔سورہ البقرہ میں فرمایا گیا’’ شاید کہ تم غور و فکر کرو‘‘ اور آل عمران میں اللہ تعالیٰ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوجاتے ہیں:’’ تم زمین پر چلو اور پھرو اور اپنی آنکھوں سے دیکھو، مشاہدہ کرو، علم حاصل کرلو۔‘‘مسلمانوں ہونے کی حیثیت سے اور ایک عظیم مقصد کے لیے برسرجدوجہد ہونے کے اعتبار سے ہم حق کے داعی اور اپنے مقصد کے ترجمان ہیں اورہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ کسی بھی داعی یا کسی تحریک کا ترجمان بغیر علم کے ہونا ایسا ہی ہے جیسابغیر ہتھیار کے کوئی جنگ لڑنے نکلا ہو۔ ہمارے پاس اپنی ملت،اپنی ریاست اور اور اپنی جدوجہد کی تاریخ کی جان کاری ہی ہمارا موثر عقلی وعلمی ہتھیار ہے۔ موجودہ زمانے میں دلائل سے بات کہی اور سنی جاتی ہے۔ صحیح بیانیہ بھی بغیر دلائل کے آگے نہیں بڑھ پاتا ہے ،اس کے برعکس فریب اور جھوٹ پر مبنی بیانیہ بھی دلائل سے سچا ثابت کیا جاتا ہے۔ہم حق پر ہیں اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ بر حق ہونے کے حوالے سے ہمارے پاس مضبوط علمی دلیل ہونی چاہیے اور ظاہر ہے اس دلیل سے بہرہ مند ہونے کے لیے ہمیں تاریخ کو بڑی باریک بینی اور فہم وشعور کے ساتھ پڑھنا اور سمجھنا ہوگا۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اسلامی تاریخ کا وسیع مطالعہ ہونا چاہیے۔ قرآنی آیات کا ہمارے پاس فہم ہونا چاہیے، کم از کم دین کے بنیادی احکامات کے حوالے سے احادیث کا مطالعہ ہونا چاہیے، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اَز بر ہونی چاہیے اور بحیثیت کشمیری ہمیں کشمیر کی سیاسی ، سماجی ، جغرافیائی تاریخ کا علم ہونا چاہیے، ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ہمارے ساتھ کب کیا ہوا ہے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ میں کتنی قرار دادیں ہیں، کون سی قرارداد کب پاس ہوئی اور اس کا پس منظر کیا ہے، کشمیر پر کتنے معاہدے ہوئے، غداریاں کن لوگوں نے کیں اور کن کی وجہ سے ہماری نسلیں گاجر مولی کی طرح کاٹی جارہی ہیں، کن لوگوں نے سچ کی راہ میں وفاشعاریوں کی ایثار پیشہ تاریخ رقم کی۔ ہمیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہونا چاہیے کہ نوے کی دہائی میں کب کیا ہوا، کس طرح یہاں جابجامقتل گاہ سجائے گئے،زندان خانے آباد ہوئے اور آگے کا سفر ہم سے کیا تقاضا کر تاہے ۔ ایک کشمیری مسلمان کے لیے اس سب نکات کی کامل جان کاری بنیادی سطح کی ہونی چاہیے اور جس طرح یہاں کے باشعور والدین کی یہ کوششیں رہتی ہے کہ ان کا بچہ لازمی طور پہلے ہی مرحلے میں نماز کلمہ سیکھے، اُسی طرح یہ اپنے دین اور اسلام کی تاریخ اور تعلیمات اور ۱۹۴۷ کے ما بعد کی کشمیر ہسٹری اور تحریکی جدوجہد کے مراحل سے بھی لازماً اپنے بچوں کو آگاہ کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تاکہ ہمارے اجتماعی حافظے میں کوئی کمی نہ رہے۔
افسوس کہ نئی نسل کا بیش تر وقت انٹرنٹ اور موبائل فون کے نذر ہوجاتا ہے، جب کہ ہماری نوجوان نسل کو کتاب کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنے کے لیے Time Management کرنی چاہیے۔وقت کے استعمال کے لیے ہماری اسلاف کس قدر حساس ہوتے تھے تاریخ اسلامی کے اوراق میں صر ف ایک مثال سے ہی ہم سمجھ سکتے ہیں۔شمس الائمہ سرخسی ؒبہت بڑے عالم گزرے ہیں۔ زمانے کی جابرحکومت نے اُن کی حق گوئی پر اُنہیں عذاب و عتاب کا شکار بنایا۔اُنہیں گہرے کنویں کے اندر قید کردیا گیا۔ اُنہوں نے اُس تاریک کنویں میں بھی اپنے وقت کو ضائع ہونے نہیں دیا۔ اپنے شاگردوں کو وہیں طلب کرلیا۔ اُن کے شاگر د روزانہ آتے تھے او رکنویں کی منڈھیر پر بیٹھ جاتے تھے۔ شمس الائمہ سرخسیؒ انہیں نیچے سے املاء کرواتے تھے اور اُن کے شاگرد لکھتے چلے جاتے تھے۔ اُن کی املاء کی ہوئی یہی کتاب بعد میں دنیا کے سامنے ۳۰؍جلدوں پر مشتمل ایک علمی ذخیرے کی صورت میں آئی۔ اس کے مقابلے میںایک منظم قوم و ملت کے ساتھ وابستہ ہونے کے باوجود ہمارا کتنا وقت ضائع ہوجاتا ہے، اس کا ہم سب بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ہماری نوجوان نسل کو دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ہر روز ایک گھنٹہ نکال لینا چاہیے، جس میں وہ پوری یکسوئی کے ساتھ قرآن، حدیث کے علاوہ اسلام اور کشمیر کی تاریخ اور اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرسکیں۔کتابوں سے دوری کا مطلب یہ ہوگا کہ آنے والے زمانے میں ہمارے دماغ سوچ و فکر سے خالی ہوں گے۔ موجود ہ دور میں اُمت کو فکری سطح پر زبردست چیلنج درپیش ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سوشلزازم، کپٹیلزم اور سیکولرازم کا چیلنج درپیش تھا لیکن وہ خارجی چیلنج تھا اور اُمت کے علماء کرام نے اس کامقابلہ کرکے اِن تمام فتنوں کی تباہ کاری کو کم از کم اُمت کے سواد اعظم پر واضح کردیاتھالیکن آج جن نئے فتنوں کا چیلنج اُمت کو درپیش ہے وہ خارجی نہیں بلکہ داخلی سطح کے ہیں۔ ہماری اپنی صفوں میں ایسے ایسے خدابیزار اور حق ناشناس نظریات پروان چڑھائے جا رہے ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط دینی فکرکے ساتھ ساتھ تحریک حق خود اداریت کی تاریخ کا بھی ہمیں مطالعہ اور خبر ہونی چاہیے۔ ورنہ مخالف خیمے سے ایسی ہمہ گیر یلغاریں ہورہی ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چل پائے گا کہ کب ہم اپنی اصل دینی فکر سے دور ہوکر اُن فتنہ انگیز نظریات اور سوچ کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔یاد رکھئے مخالف کیمپ سے علم یا معرفت کے چشمے نہیں پھوٹتے بلکہ سنی سنائی باتوں اور تاریخ سے دور کی کوڑیاں ملاکر بے ا صل باتیں کی جاتی ہیں۔ اس لئے اگر اس صورت حال کاسامنا کر نے والے کی تاریخ اسلامی پر اپنی گہری نظر ہو ،اس کی فکر مضبوط نہ ہو، اسے زمانے کے دجل وفریب کی علمیت نہ ہوتو وہ بڑی آسانی کے ساتھ امریکہ اور دنیائے باطل کے ودسرے فتنہ گروں کے حمایت یافتہ ’’اسلام ‘‘اور اس کے ضال ومضل مبلغوں کے چنگل میں پھنس سکتا ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد سے بھی ہاتھ دھو کر نہ گھر کا رہے نہ گھاٹ کا۔اسی طرح کشمیریوں کی تحریک حق خود ارادیت کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کے لیے مخالفین نوجوان نسل کے سامنے ایسے من گھڑت واقعات، سانحات اور تاریخ پیش کر تے ہیں کہ جن کا حقائق سے ودرکا بھی واسطہ نہیں ہوتا لیکن اس کا بہکنا طے ہوتا ہے، بشرطیکہ ہم اُنہیں صحیح حالات وکوائف سے واقف کرانے کے لیے موثر تعلیمی وتدریسی اقدامات کریں۔ الغرض ہمیں مجموعی طور پر اپنی تاریخ ، ثقافت اور تہذیب کو بچانے کے لیے اپنی اصل سے واقف ہونا ہوگا بصورت دیگر نہ صرف ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی تمام قربانیوں پر پانی پھیر دیں گے بلکہ آنے والے وقتوں میں خدانخواستہ اپنی شناخت اور حقیقت ہی کھو بیٹھیں گے۔