میں پورے خلوص اور دیانت سے بتانا چاہتا ہوں کہ سر محمد اقبال ایک عظیم انسان تھے ۔یہ ان کی عظمت کی دلیل ہے کہ مجھے ان کے کلام بلاغت نظام کی تاثیرنے پوری عمر میں کوئی ایسا کام کرنے نہ دیا جس سے میں دولت ِدنیا اکٹھی کر نے بیٹھتا، حالانکہ میں بفضل تعالیٰ ایک اچھے عہدے پر فائز رہا جہاں کروڑوں روپے اکٹھے کر نے امکانات تھے لیکن اقبال کایہ شعر میرے ضمیر کو بیدا ر اور ہاتھ کی صفائی سے باز رکھتا رہا ؎
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر تو
میں نے محسوس کیا کہ خدا وند قدوس کا قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ’’ ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ‘‘۔ جب ابدی حقیقت یہ ہے اور یہ انسان کے عقل وشعورمیں کی گہرائیوں میں گھر کرجائے کہ بالآخر مجھے مرنا ہے تووہ اپنی خودی بیچ کرفالتو دولت کا کیا کرے جو اس کام کی نہیں ۔ علامہ ا قبال کے بشعروکلام نے ہر ایک کو یہ عملی درس دیا کہ ضرورت کے مطابق ہی مال ودولت ہونی چائیے کیونکہ اگر کوئی وافر مقدار میںمال و دولت چھوڑ بھی جائے تو اس کی آل اولاد اس پیسے کا غلط استعمال کر کے قانون قدرت کی باغی اور نا فرمان ہو جائیں کہ پھر ان کا طرزعمل قبر تک میں ہماری روح کو کچوکے مارے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ دنیا سے بقدر ضرورت تعلق رکھاجائے۔میرے نقطہ نظر سے اقبال کی فلاسفی اور پیغام پر نظر رکھنے والے کبھی حرص وہوس میں بہک کرمالدار نہ بھی ہو ں مگر دل کی اَمارت اور ضمیر کی روشنی اُن کے ساتھ آخری سانس تک رہے گی اس لئے قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ اقبال کو پڑھنا، سمجھنا اور برتنا اس مادی دنیا میں انسانیت کا ایک فریضہ ہے۔ وہ اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھتے بلکہ خود کو فخراً ایک درویش و قلند ر کہتے ۔ فن شاعری سے ان کی دلچسپی اسی حد تک رہی کہ حسن کلام سے بات سامع کے دل میں اُتر جاتی ہے اور عمل کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ ہاں ان کیاشعار کا مقاصد خاص تھے جو ان کے شاہین اور تصور خودی کی طرح بلند وبالا تھے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بعض افراد تاریخ کا جوہر ہوتے ہیںاوروقت کے بہاؤ کو انسانی سمت میں موڑ کر تبدیلی اور ثبات کا تضاد رفع کرنے والے بنتے ہیں۔ اقبال انہی میں شامل ہیں۔ قدرت نے انھیں بڑی فیاضی اور عظمت سے نوازا تھا ۔ ملت اسلامیہ میں پیدا کر کے ان سے وہ کام لیا جو کہیں اور ممکن نہ تھا ۔ حقائق کی تہ تک پہنچنے والے ذہن اور روحانی گہرائی رکھنے والے جذبہ نے انہیں مثل شمع بنایا تھاکہ ان کے خیالات وتصورات کی روشنی سے تعلیم و تربیت کانور قوم کو عطا فرمایا اور ان کی خداداد صلاحتیں اور قوتیں پوری طرح روئے کار آگئیں ۔یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا ایک نظریاتی ، تہذیبی اور سیاسی بحران سے گذر رہی تھی، انسان کے تصورات خواہ اپنے بارے میں ہوں یا کائنات سے متعلق وہ تغیر وتبدل کی زد میں تھے، ا قوام وملل کا شعور اور طبیعت کی ساخت ا تنی بدل گئی تھی کہ عام انسان کی زندگی میں دینی فکر اور احساسِ ذمہ داری باقی نہ رہی تھی۔ اس صورت حال میں علامہ نے خودی اور اُڑان کے تصور سے پوری قوم میں جاگرتی لائی۔ حضرت علامہ اقبال کی وفات سے ۳ ماہ پہلے ہندوستان کے طول و عرض میں یوم اقبال منایا کیا گیا ۔ اس موقع پر سر اکبر حیدری صدر نشین ریاست حیدر آباد نے ایک ہزار روپیہ کا چیک سرکاری تو شہ خانہ کی طرف سے علامہ اقبال کی خدمت میں بھیجا اور اس کے ساتھ ایک خط بھی منسلک کیا جس میں یہ درج تھا کہ یہ رقم اگر چہ شاہی توشہ خانہ سے بھیجی گئی ہے لیکن اس کے بھجوانے میں میری ذاتی کوشش کاعمل دخل ہے۔ علامہ نے وہ چیک واپس کر دیا اور اس خط کے جواب میں یہ نظم لکھ کر بھیج دی، جس کا ایک شعر اقبال کے شانِ استغنیٰ پر دلالت کر تاہے ؎
غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات
کیا خدا کی شان اور کیا انقلاب ِروزگار ہے آج نہ چیک بھیجوا نے والا زندہ ہے، نہ اس کا واپس کرنے والا ،نہ ریاست باقی ہے نہ اس کا نظام باقی ہے، نہ توشہ ہے نہ توشہ خانہ صرف ایک تذکرہ ہے ،ا یک سرگزشت ہے ،ا یک کہانی ہے جوصرف اقبال کی درویشی اور خودی کی روز روشن کی طرح آئینہ داری کر رہی ہے ۔ اقبال کا یہ کہنا کہ چونکہ میں درویش صفت آدمی ہوں، غیروں کی کڑوی باتوں کو شربت کا گھونٹ سمجھ کر پی جاتا ہوں ، ممکن تھا کہ میں اس گراں قدر نذرانے کو قبول کر لیتامگرغیرت فقر اس کی قبولیت میں آڑے آئی اور میری خودداری ( غیرت فقر) نے مجھ سے سرگوشی کی کہ اقبال کی زندگی فقر و فاقہ میں گذر ے لیکن کسی کا احسان مت اٹھا ،لہذا یہ رقم میں نے واپس کر دی۔ آج کے دورمیں اسی غیرت فقر کو زندہ کر نے اور خودی کی آشنائی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
فون نمبر7298788105