طارق شبنم
’’خواجہ صاحب ۔۔۔۔۔۔ چوک میں وہ ایک معذ ور ٹھیلہ لگا کر بیٹھتاہے ،اس کے لئے بھی کچھ دے دیں ،بے چا رے کا ایک بازو بے کار ہے‘‘ ۔
عنایت نے دھیمے لہجے میںخواجہ صاحب سے کہا لیکن اس نے عنایت کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا ۔عید کی آمد آمد تھی اور خواجہ صاحب صبح سے ہی غریبوں میں صدقہ ذکوٰۃ بانٹ رہا تھا ۔ابھی بھی خواجہ صاحب کے سامنے چار پانچ خواتین بیٹھی تھیں اور خواجہ صاحب ان میں فی کس تین سو روپیہ بانٹ رہا تھا ۔ خواجہ صاحب کا شمار شہر کی معروف تجارتی شخصیات میں ہوتا تھا ۔اس کے پاس کافی سرمایہ بھی تھا ، وہ ہر سال عید کے موقعے پر غریبوں مسکینوں کی مدد کرتا تھا اور یہ بات مشہور تھی کہ خواجہ صاحب بڑا ہی دیالو اور دریا دل انسان ہے ۔خواجہ صاحب کا منشی عنایت ایک نیک دل انسان تھا ۔آتے جاتے اس معذور ٹھیلے والے کو دیکھ کر اس کو ترس آتا تھا جواپنا ایک بازو بے کار ہونے کے با وجود صبح سے شام تک مشقت کرتا تھا ۔وہ انتہائی با اخلاق اور نرم دل انسان تھا ،ہر ایک سے انتہائی محبت سے پیش آتا تھا۔ عنایت کبھی کبھی بلا ضرورت بھی اسے کچھ نہ کچھ خریدتا تھا اور اکثر اُسے پوچھتا تھا ۔
’’بھائی صاحب ۔۔۔۔۔۔ کیسا کام چل رہا ہے ؟‘‘
’’شکر اللہ کا ،بہت اچھے سے گزارہ ہو رہا ہے‘‘ ۔
اس کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا تھا ۔
’’ حبلہ ۔۔۔۔۔۔ یہ لے اور جاکے پہلے پارک کی صفائی کرنا پھر گھر جانا‘‘ ۔
عنایت اس ٹھیلے والے کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ خواجہ صاحب، جو اب تک فون پر کسی سے بات کر رہا تھا ، نے ایک بیوہ کے ہاتھ میںتین سو روپے دیتے ہوئے مغرور سے لہجے میں کہا۔
’’جی خواجہ صاحب‘‘ ۔
حبلہ نے کہا اور خواجہ کو دعائیں دیتے ہوئے پارک کی صفائی کرنے چلی گئی ۔
’’زونی ۔۔۔۔۔۔ آج بہت دنوں بعد نظر آئی ،کہاں غائب تھی ؟‘‘
’’خواجہ صاحب ۔۔۔۔۔۔ میں بہت دنوں سے بیمار ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ڈیڈی ۔۔۔۔۔ہم بازار جا رہے ہیں ،مجھے اپنے لئے کپڑے خریدنے ہیں، وہیں سے عید کے لئے بیکری اور دوسری چیزیں بھی خریدیں گے ‘‘۔
دفعتاً خواجہ صاحب کی لا ڈلی بیٹی آکر بیچ میں بولی ۔
’’ یہ لو بٹیا ،شوق سے جائو‘‘۔
خواجہ نے دائیں جانب ر کھی الماری سے نوٹوں کی گڑ ی نکال کر اس کو دیتے ہوئے کہا ۔
’’ڈیڈی ۔۔۔۔۔۔ صرف دس ہزار ،مجھے اپنے لئے کپڑے خریدنے ہیں‘‘ ۔
’’یہ لو بیٹا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس نے دوسری گڑی نکال کر اس کو دیتے ہوئے کہا ۔
’’تھینک یو ڈیڈی ۔۔۔ـــ۔۔۔۔ یو آر گریٹ ‘‘۔
کہہ کر وہ چلی گئی ۔
’’یہ لو زونی ،باغیچے کے لئے دس پندرہ بوریاں گوبر بھیجنا ‘‘۔
بیٹی سے فارغ ہو کرخواجہ صاحب نے تین سو روپے زونی کو دیتے ہوئے کہا جس کے بعد رحمی کا نمبر تھا ،جو اٹھ کر خواجہ صاحب کے سامنے آگئی ۔
’’سلام خواجہ صاحب ۔۔۔۔۔‘‘۔
اسی وقت ایک نوجوان آیا اور ایک بند برتن ،جس سے پکے ہوئے گوشت کی خوشبو آرہی تھی ،خواجہ کے سامنے رکھتے ہوئے گویا ہوا ۔
’’میں الکریم ہوٹل سے آیا ہوں ۔سیٹھ نے یہ تحفہ خاص آپ کے لئے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ عید کے لئے اپنا آڈر بک کرائیں‘‘ ۔
’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے میں تو اس بارے میں سیٹھ کو فون کرنے والا تھا ۔عنایت ،ذرا مالکن کو بلائو‘‘۔
’’جی خواجہ صاحب ۔۔۔۔ــ۔۔‘‘۔
چند لمحوں بعد مالکن آگئی ۔
’’ بیگم ۔۔۔۔۔۔ تم اس کو بتائو کہ عید کے لئے کون کون سا پکوان بنانا ہے ؟‘‘
خواجہ نے لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
’’ اجی بتانا کیا ہے ، بیٹیاں اور داماد بھی آرہے ہیں ۔پورے گیارہ اقسام کا وازہ وان ہونا چاہیے اور ساتھ میں تندوری مر غ بھی ا ور ہاں سمبند ھیوں کے لئے تندوری مرغوں کا ایک بڑا سا مجمعہ الگ سے‘‘ ۔
بیگم نے ہوٹل سے آئے ہوئے لڑکے کو تفصیل سے عید کے لئے پکوانوں کا آڈر دیا جب کہ خواجہ صاحب نہ جانے کن سوچوں میں گم ہو گیا ۔
’’خواجہ صاحب ۔۔۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ رحمی نے خواجہ صاحب کی نظر کرم حاصل کرنے کے لئے کچھ کہنا چاہا‘‘ ۔
’’عنایت ۔۔۔۔۔۔ ان سب کو تین تین سو روپے دے دو‘‘ ۔
خواجہ نے رحمی کی بات کا ٹ کر وہاں بیٹھی عورتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ رقم عنایت کو دی اور اٹھ کر جانے لگا ۔
’’خواجہ صاحب ۔۔۔۔ میرا شوہر سخت بیمار ہے ،اس کے علاج پر بہت رقم خرچ ہو رہی ہے اور میں بڑی امید لے کر آپ کے پاس آئی ہوں،کچھ زیادہ ۔۔۔۔‘‘۔
رحمی نے انتہائی عاجزی سے کہا۔
’’یہاں کیا پیڑوں کو روپے پڑتے ہیں جو میں تم لوگوں میں بانٹتا پھروں ۔اگر یہ تین سو لینے ہیں تو لے لو نہیں تو مجھے تنگ مت کرو اور اپنا راستہ ناپو‘‘۔
خواجہ نے غصے بھرے لہجے میں ر حمی کی بے عزتی کرتے ہوئے کہا ، غربت کی تپش میںنڈھال رحمی کی آنکھیں درد کے بیکراں ساغر میں تبدیل ہوگئیںاوروہ بغیر کچھ کہے وہاں سے چلی گئی ۔جب کہ خواجہ کے اس رویئے سے عنایت کے وجود میں بھی درد کی ایک تیز ٹیس دوڑ گئی ،لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا۔
’’چلو بند کرو یہ بہی کھاتہ،اب اگر کوئی مانگنے آئے تو کہنا خواجہ صاحب یہاں نہیں ہیں‘‘ ۔
’’بہترجناب ، خواجہ صاحب میں نے آپ کو اس معذ ور ٹھیلے والے کا کہا تھا ۔بہت غریب ہے بے چارہ ‘‘۔
’’غریب ہے تو خود کیوں نہیں آیا ؟‘‘
’’خواجہ صاحب ۔۔۔۔۔۔ وہ بڑا خود دار ہے ،کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا‘‘ ۔
’’چلو یہ دو سو روپے اس کو بھی دے دو‘‘ ۔
خواجہ نے الماری سے دو سو کا نوٹ نکال کر عنایت کو دیتے ہوئے کہا اورالماری کو تالا لگا کر چلا گیا ۔
چند لمحے سوچنے کے بعد عنایت نے بے دلی سے نوٹ جیب میں رکھا اور خاتے پر حساب دیکھ کر گننے لگا ۔۔۔۔۔۔
’’حبلہ ۔۔۔۔۔۔زونی۔۔۔۔۔۔ ، مختی۔۔۔۔۔۔۔رحتی۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ‘‘۔
صدقہ زکوات کے نام پردیالو خواجہ صاحب نے کل ملا کر پانچ ہزار سے کچھ کم رقم بانٹی تھی ۔عنایت نے بہت کوشش کی کہ وہ جاکے معذور ٹھیلے والے کی کچھ مدد کرے لیکن کام میں الجھا رہنے کی وجہ سے نہیں جا سکا ۔یوم عرفہ کے دن افطاری سے پہلے ہی وہ گھر کے لئے نکلا اوراس جگہ پہنچا جہاں وہ معذور ٹھیلہ لگا کر بیٹھتا تھا ،لیکن وہ ٹھیلہ بند کر کے چلا گیا تھا ۔عنایت تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے پاس ہی دوسری گلی میں واقع اس کے گھر پہنچا ،وہاںاس کے پاس تین چار خواتین بیٹھی تھیں۔
’’ارے صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ اس غریب خانے پر کیسے ،کوئی حکم؟‘‘
معذور نے عنایت کو دیکھ کر بے اختیار پوچھا۔
’’کوئی حکم نہیں ،میں نے سوچا آپ سے ملاقات کروں‘‘ ۔
’’زہے نصیب ۔۔۔۔اس نے خوش ہو کر کہا‘‘۔
اسی لمحے وہ خواتین رخصت لے کر اسے دعائیں دیتے ہوئے چلی گئیں۔جانے سے پہلے اس نے ان خواتین سے کہا ۔
’’جب بھی کوئی ضرورت ہو تو بلا جھجھک اس غریب بھائی کے پاس آیا کرو‘‘ ۔
عنایت مخمصے میں پڑ گیا کہ اب کیا کرے ،چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس کے لئے رکھی ہوئی تھوڑی سی رقم نکالی اور واپس نکلنے کے لئے اٹھا لیکن اس نے بالکل نہیں مانا اور ہاتھ پکڑ کر اس کو بٹھایا۔عنایت نے یہ سوچ کر رقم واپس رکھی کہ جاتے وقت ہی دینا ٹھیک رہے گا ۔اسی لمحے اس کی بیوی مشروبات اور میوے سے بھرے پلیٹ لے کر آگئی ،افطاری کا وقت بھی ہو گیا اور دونوں روزہ کھولنے کے بعد ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے ۔کچھ منٹوں بعد ہی رحمی کمرے میں داخل ہوگئی جس سے دیکھ کر عنایت حیرت زدہ ہو گیا ۔
’’رحمی بہن ۔۔۔۔۔ خیریت اس وقت کیسے آنا ہوا ،اب کیسی طبیعت ہے تمہارے شوہر کی ؟‘‘
اس معذورنے ا نتہائی شفقت بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’اللہ کا شکر ہے،آج کافی افاقہ محسوس ہو رہا ہے ۔ یہ کچھ پیسے بچے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’اجی ۔۔۔۔۔۔ آپ ایک منٹ یہاں آئیں ‘‘۔
اسی وقت اس معذور کو بیوی نے بلایا اور وہ کچن میں چلا گیا ۔
’’رحمی بہن ۔۔۔۔۔۔ یہ کیسے روپے ہیں ؟‘‘
عنایت نے رحمی سے پوچھا۔
’’کیا بتائوں منشی جی ،کل جب خواجہ صاحب کے گھر سے بے عزت ہو کر نکلی تو پریشانی کے عالم میں سیدھے اس کے پاس پہنچ گئی اور اس کو اپنا حال سنایا ۔اس کی جیب میں اس وقت جتنی رقم تھی اس نے سب مجھے تھمادی ،اپنے شوہر کا علاج معالجہ کرکے یہ دو ہزار بچے ہیں اور میں نے سوچا اس کو واپس کر دوں ۔۔۔‘‘۔
رحمی کی بات سن کر عنایت کے عقل کے طوطے اڑ گئے ،اسی لمحے وہ معذور کچن سے واپس آگیا اور عنایت اس سے اجازت لے کر خواجہ صاحب کی دریا دلی پر ماتم کرتے ہوئے انتہائی شر مندگی کی حالت میں وہاں سے واپس نکلا ۔
���
اجس بانڈی پور ہ کشمیر
[email protected]
موبائل نمبر؛9906526432