غلام محمد انصاری
خواجہ معین الدین شیخ نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز احمدآباد میونسپل اسکول بورڈ میں بطور ایک قابل استاد کی حیثیت سے کیا اور ہیڈ ماسٹر کے نازک عہدِ سے ایک عرصہ ہوا سبکدوش ہوئے۔بچپن ہی سے انھیں کہانیاں لکھنے کا بڑا شوق رہا اور اس طرح درس و تدریس کے ساتھ ساتھ وہ افسانے اور آزاد نظمیں لکھنے لگے۔احمدآباد میں اُس زمانے میں جو لوگ آزاد نظم سے متاثر ہوئے اور تواتر سے اس صنف میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے ان میں محمد علوی، رشید افروز،قیوم کنول، جینت پرمار، صادق نور، ابہام رشید، تنویر صدیقی اور خواجہ معین الدین شیخ یعنی خواجہ احمد کا نام سرِ فہرست رہا۔ ان کے مقابل ایک ایسا طبقہ بھی سامنے آیا جس نے آزاد نظم کو Rejectکر دیا ۔وہ طبقہ صرف ردیف قافیوں اورغزلوں کو ہی اوّلیت دیتا رہا۔شروع میں ایسا لگا کہ گجرات میں آزاد نظم، ڈگمگا رہی رہی ہے اور وہ جس پگڈنڈی پر چل رہی ہے اس کا راستہ زیادہ دور تک نہیں جاتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ کھیتوں کے درمیان لہراتی ہوئی پگڈنڈی کی طرح آزاد نظم نے ایک خوبصورت موڑ لیا، لہٰذا قاری کو آزاد نظم کا لوہا ماننا ہی پڑا۔
خواجہ احمد، ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار بھی ہیں۔رسائل میں ان کے افسانے چھپتے رہے ہیں مگر ابھی تک ان افسانوں کو کتابی شکل نہیں دی جا سکی۔ بہر کیف! فی الحال، خواجہ صاحب کی آزاد نظموں پر بات کرنی ہے۔تخلیق کار کی زندگی میں کبھی کبھی عجیب موڑ آیا کرتے ہیں۔
کبھی تو وہ خوب افسانے لکھا کرتا ہے پھر کبھی غزلوں کی سمت چلا جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنی پسندیدہ صنف کو اپنا لیتا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ خواجہ صاحب نے آزاد نظم سے ایک اٹوٹ رشتہ بنا لیا ہے۔ وہ خوب کہہ رہے ہیں اور اچھا کہہ رہے ہیں۔ ان کے افسانے ممکن ہے پیچھے چھوٹ گئے ہوں مگر آزاد نظمیں اپنا اثر بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ان کا اپناقیمتی سرمایہ ہے۔گذشتہ پانچ دہائیوں سے ، کسی نام و نمود اور شہرت کی فکر کے بغیر وہ بے لوث ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھیں چھپنے چھپانے کا بھی بڑا شوق نہیں رہا اور نہ کسی سے اس تعلق سے کبھی سفارش ہی کی مگر وہ لکھتے رہے اور یوں قطرہ قطرہ ایک سمندر بن گیا۔ان کی ایک نظم دیکھیں۔
وہ ہر وقت میری یادوں میں وہ ایک طوفاں میرے خیالوں میں
وہ ہر شب میرے خوابوں میں محوِ پرواز آسمانوں میں!
رابطہ۔Cell : 9327032252
[email protected]>