خواجہ احمد عباس کا نام زبان پہ آتے ہی ان کی ہمہ جہت یا پہلو دار شخصیت اپنے پورے علمی،ادبی اور فلمی وقار کے ساتھ ہمیںاپنی طرف متوجہ کرتی ہے ۔دراصل وہ بنیادی طور پر ایک تخلیق کار تھے ۔ان کی تخلیقی اُپج نے اردو فکشن اور ہندوستانی فلمی صنعت پہ اپنے دیر پا اثرات چھوڑے ہیں۔ادب میں ان کی حیثیت ایک افسانہ نگار ،ناول نگار،ڈراما نویس اورایک بے باک صحافی کی رہی ہے۔پانی پت کی سرزمین کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس سر زمین پہ اردو ادب کی نابغۂ روزگار شخصیت مولانا خواجہ الطاف حسین حالیؔپیدا ہوئے تھے۔اسے خواجہ احمدعباس کی سعادت مندی کہیے کہ مولانا الطاف حسین حالیؔ ان کے پرنانا تھے اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ خواجہ غلام السّیدین ( مشہور ماہر تعلیم ) خواجہ احمد عباس کے چچا زاد بھائی تھے۔مزید برآں جس علمی،ادبی ودینی ماحول و معاشرے میں خواجہ احمد عباس کی تربیت ہوئی وہ بھی ان کی ادیبانہ صلاحیتوں کو نکھارنے سنوارنے میں معاون ومددگار ثابت ہوا۔انھوں نے پانی پت میں حالیؔمسلم ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ میں اپنے چچازاد بھائی خواجہ غلام السّیدین کی سرپرستی حاصل کی کہ جن کے کردار اور علمی وقار سے وہ بہت متاثر ہوئے ۔اس پورے خاندانی پس منظر کے حوالے سے یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ احمد عباس کا قلمی رشتہ وراثتی رہا ہے لیکن اُن کی ہمہ جہت شخصیت میں ہمیں جو بُوقلمونی نظر آتی ہے وہ اردو کے کچھ ہی ادیبوں کو نصیب ہوئی ہے ۔آئیے خواجہ احمدعباس کی ہمہ جہت اور پُر وقار شخصیت کے متنوع پہلوؤں پر نظر ڈالتے چلیں۔
1932ء میں خواجہ احمد عباس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے اور1935ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔گریجویشن کے فوراً بعد انھوں نے اپنی علمی زندگی کی شروعات’’ National Call‘‘اور ’’Hindustan Times‘‘جیسے اہم اخبارات میں بلا معاوضہ کالم لکھنے سے کی۔ہفتہ واری اخبار’’Aligarh Opinion‘‘انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میںجاری کیا ۔اس کے بعد 1935سے1947ء تک وہ بمبئی کے ایک مشہور انگریزی اخبار’’ Bombay Chronical‘‘سے منسلک رہے۔اسی دوران اخبارات میں فلمی کالم بھی لکھتے رہے ۔ان کے اخباری کالموں سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ وہ ایک بے باک صحافی تھے جن کی صحافت نے ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ۔صحافی تو وہ تھے ہی اس کے علاوہ وہ ایک بہت بڑے پروڈیوسر ،اسکرپٹ رائٹر ،افسانہ نگار ،ناول نگار،ڈراما نویس اور رپور تاژ نگار بھی تھے۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ خواجہ احمد عباس نے ادب کی بیشتر اصناف میں اپنی انفرادیت کے عمدہ نقوش چھوڑے ہیں ۔اردو تو ان کی خاندانی اور مادری زبان تھی لیکن اس کے علاوہ ہندی اور انگریزی میں بھی ان کی متعدد تصانیف یادگار ہیں۔
خواجہ احمد عباس کی ایک حیثیت ترقی پسند ادیب کی تھی۔پریم چند کے بعد جن ادیبوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقات سے ترقی پسندی کے جھنڈے گاڑے ان میں سعادت حسن منٹو،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،اور عصمت چغتائی کے علاوہ خواجہ احمد عباس کانام بھی شامل ہے۔۔خواجہ احمد عباس،انسان دوستی،بھائی چارے،آپسی میل ملاپ اور ملک میں ترقی اور امن وسلامتی کا ماحول بنائے رکھنے کے خواہاں تھے۔یہی جذبہ ء اخوت ورواداری ان کی ادبی اور فلمی سرگرمیوں میں بھی کار فرما نظر آتا ہے۔مقصدیت کو ادب میں عیب سمجھا جاتا ہے حالانکہ مقصدیت کے بغیر ادب،ادب نہیں رہتا ۔ادب میں مقصدیت اور بے راہ روی بھی مغرب ہی کی دین ہے ۔البتہ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ فن پارے میں مقصدیت ایک زیریں لہر کی طرح موجود رہے ۔مقصدیت فن پہ غالب نہ آئے ۔خواجہ احمد عباس کے ناقدین نے انھیں ادیب کے بجائے اخبار نویس گردانا ہے جو بہت حد تک ان کے ساتھ زیادتی کہی جاسکتی ہے۔مانا کہ خواجہ احمد عباس کے افسانوں میں صحافتی انداز کی جھلکیاں موجود ہیںلیکن اس کے باوجود ان کے ادبی مقام ومرتبے کے لئے یہی کیا کم ہے کہ ان کا پہلا افسانہ ’’ابابیل‘‘جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے شائع ہونے والے مجلے ’’جامعہ‘‘میں شائع ہونے کے بعد مقبولیت وشہرت کی بلندیوں کو چھو گیا۔یہی افسانہ دنیا کی بڑی زبانوں مثلاً انگریزی،جرمن،فرانسیسی،روسی،عربی،چینی اور سویڈش میں ترجمہ کیا گیا ہے۔پروفیسر وہاب اشرفی نے خواجہ احمد عباس کے افسانوں میں حد سے بڑھی مقصدیت پسندی میں فنی جمالیات کے فقدان کاذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے:
’’خواجہ احمد عباس کے افسانے نہ تو بیدی کی مہارت رکھتے ہیں نہ منٹو کی جنسی جبلت اور نہ ہی کرشن چندر کی طرح نیم رومانی،نیم حقیقت پسندی کے قریب آتے ہیں۔دراصل ان کے یہاں ان کا فن اس طرح پیش کرنے کا فن ہے کہ اس کی کھردری سچائیاں سامنے آجائیں۔فنی بھید بھاو سے زیادہ ان کے یہاں مواد پر زور ملتا ہے ۔اشتراکیت کے پس منظر میں ان کی تخلیقات غریبوں،متوسط طبقے کے لوگوں اور استحصال کرنے والوں،بورژوائی ٹھیکیداروں اور شرپسندوں کے خلاف ایک موثر آواز ہے۔گویا وہ مقصد کے قائل ہیںاور ادب میںمقصدیت اس طرح حاوی ہے کہ وہ فنی رموذ ونکات کو بہت زیادہ اہمیت دینے کے لئے آمادہ نہیں‘‘ خواجہ احمد عباس نے اردو ادبی دنیا کو اپنے گیارہ افسانوی مجموعوں سے نوازہ ہے۔جو اپنی مخصوص زبان و بیان ،موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ان کے افسانوی مجموعوں کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے:
1۔’’ایک لڑکی‘‘یہ پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو دو جلدوں میں شائع ہوا ۔
2۔’’زعفران کے پھول‘‘1948ء میں ممبئی سے شائع ہوا۔
3۔اندھیرا اُجالا‘‘اس مجموعے میں ہندی افسانے بھی شامل ہیں۔
4۔’’کہتے ہیں جس کو عشق‘‘اس کی اشاعت 1954ء میں ہوئی جس میں تین طویل افسانے شامل ہیں۔
5۔’’میں کون ہوں‘‘یہ پندرہ افسانوں پہ مشتمل ہے جو 1949ء میں منظر عام پر آیا۔
6۔’’نیلی ساری‘‘1982ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا۔
7۔’’گیہوں اور گلاب‘‘میں17افسانے شامل ہیں۔1965ء
8۔’’پاوں میں پھول‘‘
9۔’’بیسویں صدی کے لیلیٰ مجنون‘‘
10۔’’نئی دھرتی نئے انسان‘‘
11۔’’دیا جلے ساری رات‘‘یہ مجموعہ1959میں شائع ہوا۔
ان افسانوی مجموعوں کے سر نامے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خواجہ احمد عباس کے افسانے اگرچہ رومانی اسلوب اور پیشکش کے اعتبار سے بالکل جدا گانہ ہیں لیکن اس کے باوجود کئی افسانے ایسے بھی ہیں جن میں رومانی خُو بُو موجود ہے۔’’اندھیرا اجالا‘‘بمبئی رات کی بانہوں میں‘‘اور ’’دیا جلے ساری رات‘‘
رومانیت آمیز ہیں۔مجموعی حیثیت سے جب ہم خواجہ احمد عباس کے افسانوں کی موضوعاتی روح تک رسائی حاصل کرتے ہیںتو اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک حسّاس افسانہ نگار کی طرح سماج میں پنپ رہی ان تمام بُرائیوں اور زیادتیوں کے خلاف ایک طرح سے تحریری احتجاج درج کیا ہے جن بُرائیوں او ر ظلم و زیادتیوں کا چلن سماج ومعاشرے میں ایک طویل مُدت سے قائم تھا ۔خواجہ احمد عباس کے کئی افسانے لازوال ولا مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مثلاً ’’ابابیل‘‘ سردار جی‘‘معمار‘‘زعفران کے پھول‘‘دیا جلے ساری رات‘‘بارہ گھنٹے‘‘اُتار چڑھاو‘‘ایک پائلی چاول‘‘نیلی ساری‘‘سونے چاندی کے بُت‘‘اور نئی دھرتی نئے انسان‘‘کے علاوہ بھی ایسے افسانے ہیںجنھیں دنیا کی بڑی زبانوں کے شہکار افسانوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔تقریباً تین سو کے قریب ان کے افسانے معیاری ادبی رسائل کی زینت بنے ہیں اور آدھ صدی پر ان کا ادبی سفر پھیلا ہوا ہے۔ایک ایسا ادیب کہ جس نے انفرادی اور اجتماعی معاملات ومسائل حیات سے نپٹنے کے بعد ادبی وفلمی دنیا کی اس قدر خدمات انجام دی ہوں ،یہ سب سوچ کے حیرت ہوتی ہے۔اسے اتفاق کی بات سمجھ لیجیے کہ جس وقت خواجہ احمد عباس نے اپنے پورے شخصی جوش وہوش اور علمی وادبی جذبے سے سرشار تھے یعنی 1936اور1937ء کا زمانہ ،یہی ترقی پسند تحریک کی شروعات کا زمانہ بھی تھا۔ظاہر سی بات ہے ہندوستانی سماج ومعاشرے کی زبوں حالی،ہندوستان اور ہندوستانیوں کی محکومیت ،بھونڈی رسمیںاور رواج،عورتوں پہ ظلم وزیادتی،ان کی تعلیم اور حقوق سے انھیں دور رکھے جانے کی سازشیں یہ تمام تلخ اور روح فرسا حالات وواقعات کے اثرات اس دور کے ادیبوں کے ذہن ودل پہ پڑنا لازمی تھا۔چنانچہ خواجہ احمد عباس نے بھی ایک ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے ان تمام مصائب ومسائل کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ہے۔انھوں نے ذاتی محنت ولگن اور ایک ترقی پسندانہ ذہن کے ساتھ اپنی سوچ کادائرہ بہت وسیع رکھا ۔وہ اپنے ادبی وفلمی سروکار سے سماج ومعاشرے میں ایک خوشگوار تبدیلی چاہتے تھے۔چنانچہ وہ ادب کی کسی ایک صنف تک محدود نہیں رہے بلکہ ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت قرار پائے۔بھلے ہی اس دور کے اہل علم وفن نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا لیکن انھوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی بس اپنے کام سے کا م رکھا۔پروفیسر علی احمد فاطمی ایک جگہ رقمطراز ہیں:
’’خواجہ احمد عباس اپنی غیر معمولی ہمہ جہت صلاحیت کے ذریعے کئی شعبوںمیںایک ساتھ داخل ہوئے ۔ادب، صحافت،فلم،سیاست اور گاندھی ونہروکی رفاقت۔۔۔ان سب نے عباس کے قلم اور ذہن کو ایک ہی وقت میں افسانہ نگار،ناول نگار،ڈرامانویس،فلم کار،ہدائت کار،اپٹا کے سر گرم رُکن اور نہ جانے کیا کیا ۔ وہ ایک ہمہ جہت اور مختلف الٖصفات شخص اور فنکار تھے لیکن ان کی یہی ہمہ جہتی اور مختلف الصفاتی جہاں ان کے کھلے ذہن اور وژن کو بڑا کرتی ہے وہیں اردو والوں کے بند ذہن کے حوالے سے نقصان بھی پہنچاتی ہے ۔محدود ومشروط قارئین و ناقدین نے اپنی پسند وناپسند اور ترجیحات سے ان کو قبول کیا اور اکثر نے نہیں بھی کیا لیکن خواجہ احمد عباس اس قبول اور عدم قبول کے جھگڑوں میں پڑے بغیر اپنے کام میں مصروف رہے۔افسانہ پر افسانہ ،ناول پر ناول ،فلم پر فلم ، صحافت اور کالم الگ۔کوئی انھیںصف اوّل کا ادیب وفنکار مانے یا نہ مانے لیکن ان کی ایمانداری اور بے باکی پر شک نہیں کرسکتا۔وہ اکثر اپنی بے باکی اور حق گوئی کی وجہ سے مباحثے اور تنازعے کا شکار رہے۔ان کا تخلیقی ادب عدم توجہ کا شکار رہا ہے‘‘
ایک بڑے ادیب کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ پیش آتا رہا ہے ۔ ہر دور میں سنجیدہ اور غیر سنجیدہ قارئین وناقدین نے کسی بڑے ادیب کے ادبی سرمائے کو ردوقبول کی نگاہ سے دیکھا ہے۔متن ومعنی اور تھیوری کا عمل دخل اپنی جگہ لیکن ادب اور ادیب کو ادبیت کے دائرے میں رہنا نہایت ضروری ہے۔خواجہ احمد عباس کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا تھا۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ کچھ افسانوں میںان کا فن مجروح ہوا ہے ۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک فن سے زیادہ مقصدیت کی ترسیل اہم مسلہ تھا ۔وہ سوسائٹی میں مساوات کے زبردست حامی تھے۔انھوں نے کشمیر کے حوالے سے بھی ایک افسانہ لکھا ہے جس کا عنوان ’’زعفران کے پھول ‘‘ہے۔افسانے کے عنوان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ رومانی نوعیت کا افسانہ ہوگا لیکن اس کی قرات سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ مذکورہ افسانہ ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم وتشدد کے خلاف کشمیری عوام کی صدائے احتجاج سے تعلق رکھتا ہے۔گویا خواجہ احمدعباس ،کرشن چندر کے بعد سب سے بڑے ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے اور ادب برائے زندگی کے نظریے سے آخر وقت تک جُڑے رہے۔بقول پروفیسر اسلم جمشید پوری:
(باقی باقی)
……….
رابطہ :اسسٹنٹ پروفیسر شعبئہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
9419336120