ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
خواتین کا عالمی دن ہر سال ۸؍ مارچ کو منایا جاتا ہے، ایک ایسا دن ہے جو دنیا بھر میں خواتین کے حقوق، ان کی جدوجہد، قربانیوں اور کامیابیوں کو تسلیم کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ یہ دن محض تقریبات، جلسے یا رسمی بیانات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ صدیوں کی قربانیوں، آزمائشوں اور استقامت کے باوجود عورت کو آج بھی مکمل مساوات، انصاف اور تحفظ میسر نہیں۔دنیا کے مختلف خطوں میں عورت آج بھی مظلومیت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ کہیں وہ تعلیم سے محروم رکھی جاتی ہے، کہیں زبردستی کم عمری میں شادی کا شکار ہوتی ہے، کہیں گھریلو تشدد سہتی ہے تو کہیں اسے سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی میں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگرچہ بظاہر جدید دنیا میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج بھی عورت کو اپنی جگہ بنانے کے لیے کئی گنا زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، اسے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے مردوں سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اکثر معاشرتی تعصب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ عورت نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں، چاہے وہ جنگ کے میدان ہوں، انقلابی تحریکیں ہوں یا معاشرتی تبدیلی کی راہ میں اٹھائے گئے قدم۔ وہ ماں کی صورت میں اولاد کی بہترین پرورش کرتی ہے، بہن بن کر محبت بانٹتی ہے، بیوی کے روپ میں قربانی دیتی ہے اور بیٹی کی حیثیت سے رحمت کہلاتی ہے۔ لیکن ان تمام خوبصورت پہلوؤں کے باوجود اکثر اسے وہ عزت و وقار نہیں دیا جاتا جس کی وہ حق دار ہے۔
اسلام نے عورت کو جو مقام دیا، وہ دنیا کا کوئی دوسرا نظام نہیں دے سکا۔ ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی، بیٹی کو باعثِ رحمت قرار دیا گیا اور بیوی کو سکون کا ذریعہ بتایا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور جہالت، رسم و رواج اور روایات کے نام پر عورت پر بے جا پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ایک حساس پہلو یہ بھی ہے کہ آج کی دنیا میں عورت کو دو انتہاؤں کے بیچ لا کھڑا کیا گیا ہے۔ ایک طرف اسے گھریلو قیدی بنا کر اس کی صلاحیتوں کو دبایا جاتا ہے، تو دوسری طرف آزادی کے نام پر اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔ کہیں اسے اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں اور کہیں اسے محض نمائشی شے بنا دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت نہ تو کمزور ہے، نہ کسی رعایت کی محتاج بلکہ اسے صرف وہی حقوق درکار ہیں جو قدرت نے اسے عطا کیے اور جنہیں انسانی معاشرے نے پامال کر دیا۔
تاریخ میں ہمیں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جہاں عورتوں نے نہ صرف اپنے گھر بلکہ اقوام کی تقدیر بھی بدلی۔ حضرت خدیجہؓ کی مالی و اخلاقی مدد کے بغیر ابتدائی دور میں اسلام کی ترویج ممکن نہ تھی، حضرت فاطمہؓ کی سیرت صبر و استقامت کا اعلیٰ نمونہ ہے، حضرت عائشہؓ کا علم آج بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح مختلف زمانوں میں بے شمار خواتین نے سائنس، ادب، سیاست، سماجیات اور دیگر شعبوں میں اپنا لوہا منوایا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج بھی بے شمار خواتین کو اپنے حق کے لیے لڑنا پڑ رہا ہے۔
اگر کشمیر کے تناظر میں بات کی جائے تو یہاں کی خواتین کی جدوجہد اور قربانیاں تاریخ کے سنہرے اور دردناک ابواب میں لکھی جا چکی ہیں۔ کشمیری خواتین نے ہمیشہ ظلم، ناانصافی اور جبر کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ دہائیوں سے جاری تنازع نے کشمیری عورت کو نہ صرف بیوہ، یتیم اور بے گھر کیا بلکہ اسے شدید نفسیاتی اور جسمانی صدمات سے بھی دوچار کیا ہے۔ یہاں کی مائیں بیٹے کھو چکی ہیں، بہنیں اپنے بھائیوں کے انتظار میں آنکھیں پتھرا چکی ہیں اور بیویاں اپنے سہاگ کے ماتم میں عمر گزار رہی ہیں۔ اس کے باوجود کشمیری عورت ہمت اور صبر کی مثال بنی ہوئی ہے، وہ تعلیم حاصل کر رہی ہے، میدان عمل میں اتر رہی ہے اور اپنی پہچان بنا رہی ہے۔
ہمیں یومِ خواتین کو محض ایک روایتی دن کے طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ اسے اس عزم کے اظہار کا ذریعہ بنانا چاہیے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں عورت کو اس کا جائز مقام دیا جائے۔ جہاں اسے اس کے حقوق کے لیے احتجاج نہ کرنا پڑے، جہاں وہ اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کر سکے، اپنے خواب پورے کر سکے اور سب سے بڑھ کر اسے عزت، وقار اور تحفظ مل سکے۔یاد رکھنا چاہیے کہ جب عورت کو اس کے حقوق ملیں گے تبھی معاشرہ ترقی کرے گا کیونکہ عورت ہی وہ ہستی ہے جو نسلوں کی پرورش کرتی ہے، تہذیبوں کی بنیاد رکھتی ہے اور محبت، قربانی اور وفاداری کی مثالیں قائم کرتی ہے۔ اگر ہم واقعی ایک بہتر دنیا چاہتے ہیں تو ہمیں عورت کو اس کا حقیقی مقام دینا ہوگا، اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہر عورت محفوظ، خوشحال اور بااختیار ہو۔یہ صرف عورت کی جنگ نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کے حقوق کے لیے کھڑا ہو، کیونکہ جب ایک عورت مضبوط ہوتی ہے تو پورا معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔
(مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر، ماہر تعلیم اور سماجی کارکن ہیں)