عظمیٰ نیوز ڈیسک
نئی دہلی//چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے ایک تقریب کے دوران سماج میں خواتین کی حالت اور ان کے حقوق کے سلسلے میں بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی ذہنیت کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہماری سوچ خواتین کے لیے رعایتیں دینے سے آگے بڑھنی چاہیے تاکہ آزادی اور مساوی بنیاد پر زندگی جینے کے ان کے حق کو پہچانا جاسکے۔چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ خواتین جہاں پر کام کرتی ہیں وہاں انہیں چھوٹ نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے بڑھ کر یکساں حقوق اور عزت چاہیے۔ انہیں محفوظ اور بہتر ورک پلیس کی ضرورت ہے۔ سی جے آئی نے کہا کہ تحفظ، ،ساوی مواقع، عزت اور اختیار کاری، یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جن پر الگ سے بات ہو بلکہ ملک کے ہر شخص کو اس کے بارے میں سامنے آکر بات چیت کرنی چاہئے۔’نیوز18’کی ایک تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چندرچوڑ نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بات کرنا خواتین کی بات نہیں ہے، یہ ہم سبھی کی بات ہے۔ ہمیں ہر شام اس طرح کی اہم گفت و شنید میں شامل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین جو کر رہی ہیں اور جس طرح کا کردار ادا کر رہی ہیں اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی علم خاتون کی گہری سوچ کی جگہ نہیں لے سکتا ہے۔ خواتین نے تمام مثالیں قائم کی ہیں لیکن انہیں آج بھی خود کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔پروگرام کے دوران چندرچوڑ نے ہندوستان میں آئین نافذ ہونے سے، ہندوستانی خواتین کے حقوق کا چارٹر تیار کرنے والی ہنسا مہتا کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہنسا مہتا ایک فیمینسٹ تھیں، جنہوں نے ایک مشہور منطق دیا کہ مردوں کے حوالوں کو انسانیت کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہیومن رائٹس کے یونیورسل ڈکلیئریشن کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ انسانی حقوق کے مطابق سبھی انسان آزاد اور یکساں حقوق کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں، صرف مرد ہی ایسے نہیں ہیں جنہیں یہ خصوصی حق ملا ہے۔سی جے آئی نے مزید کہا کہ سبھی خاتون کو اس کی خصوصیت کے لیے قبول کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مزدوری کے کاموں میں خواتین کی حصہ داری 37 فیصد ہے، وہیں جی ڈی پی میں ان کا تعاون 18 فیصد کا ہے۔ آج بھی ہم خواتین کی اس حصہ داری تک نہیں پہنچ پائے ہیں جس کے بارے میں آزادی سے قبل امید کی گئی تھی۔