پچھلے کچھ سال ایسے گزرے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک وقوم میں چر چے کا جو سب سے زیادہ اہم موضوع رہا وہ ’’خواتین کے حقوق‘‘ ہے۔ یقین مانئے اس عرصہ میںکسی بھی پارلیمنٹ ، ایوان ،اسمبلی یا پھر اقوام متحدہ میں عراق وافغان پر امریکی جارحیت پر بحثیںنہ ہوئیں ، شام میں بشارالاسد حکومت کے مظالم کو اُجاگر نہ کیا گیا، فلسطین میں اسرائیلی جبر وزیادتیوں پر کوئی بات نہ ہو ئی ، برما کے روہنگیا مسلمانوں کو تو یوں بھی اللہ کا سہارا ہی ہے مگرکشمیریوں پر جو خون کے آنسو رلادینے والاظلم وجورہوا اس کا بھی ذکر نہ کسی فورم پر اٹھا نہ ہی ہندوستانی حکومت اٹھانے دیتی رہی اور ہندوستانی میڈیا نے بھی ان المیوں کو خبر وں میں ڈھالنے کی زحمت کی۔مختصر اًیہ کہ سب سے زیادہ بحث اگر کسی موضوع پر ہوئی وہ حقوق نسواں اور تکریم ِ نسوائیت تھی ۔اس کی آڑ میں ہر جگہ اور ہر بار اسلام اور مسلمانوںکو خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایہ گیا، کبھی برقعہ اور پردہ نشانہ بنا تو کبھی تعلیم ِ نسواں ، کبھی محرم کے ساتھ لمبا سفر کر نے کی مذہبی شرط، کبھی تین طلاق کا مسئلہ، کبھی مسلم مردوزن میں مساوات پر کن بحثیں۔غرض تمام مواقع کا ہدف مسلمان رہا، چاہے اس کرم فرمائی میں ’’اپنے ‘‘ ملوث رہے یا پھر غیر ۔ ان، مباحث ، چرچوں اوراور خبروں کا نفس ِ مضمون بھی دیکھئے ـ:
۱ :آج ہوا تین طلاق کا ہوا خاتمہ ، مسلمان عورتوں پر شوہروں کا ظلم قصہ پارینہ۔ اس معاملہ پر تین تالیاں بجاتے ہوئے ٹر ٹر کر نے والوں سے ذر اسا یہ پوچھے بھگتو! یہ جو وزیراعظم مودی ہیں کی پتنی جی سالوں سے بغیر طلاق کے اکیلی رہ رہی ہے، کیا وہ ظلم نہیں ؟
۲ :آج فلاں مغربی ملک میں برقعے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ارے حضور وہاں عورت کو پہلے ہی شرم و حیا سے بغاوت کی آزادی ہے۔ اُن ملکوں میں عورت بھائی باپ وفادار شوہر کے رشتے کے لئے عمر بھر ترس رہی ہے اور یہی ان کی آزادی کی قیمت ہے؟ اس بے شرم آزادی کا حال یہ ہے کہ مغرب کے ایک ملک کی بن بیاہی وزیراعظم بر سر ایوان اعلان کر تی ہے کہ وہ سات ماہ سے اُمید سے ہیں اور کوئی ا س سے یہ دریافت کرتا یہ کیا ہوا، کب ہوا ، کیسے ہوا۔
تاریخ کا ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ اگر عورت کے حقوق اور تعظیم ملی تو صرف اسلام کی برکت سے ۔اس سے زیادہ کسی بھی مذہب یا عقیدے نے خواتین کو آزادی نہیں دی۔ یقین نہ آئے تو منوسمرتی کا گیان پراپتھ کریئے ۔اس لئے آپ اسلام کو نشانہ بنانا چھوڑ دیں اور عورتوں کے اصل حقوق کی طرف دھیان دیجیے ۔ یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر تہذیبوں کے تصادم میں پرکر اسلام ماننے والوں پر تنقید کے بجائے عورتوں کے حقوق اور عزت کی بحالی کے لئے عالمی سطح پر تحریک چلائی گئی ہوتی تو آج ہندوستان میں جسم فروشی ہوتی نہ یہاں ماں بہن بیٹی کی عزت داؤ پر لگی ہوتی۔ کیا ہم میں سے دامنی کا درد ناک واقعہ بھول سکتاہے۔ خواتین کے ساتھ پیش آرہے ظالمانہ واقعات خود بولتے ہیں ۔ یوپی کی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کو گزشتہ سال جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا ، پولیس میں مجرم کے خلاف باضابطہ مقدمہ درج ہو امگر پولیس نے اب تک اصرار کے باوجود جب کوئی کارروائی نہ کی تو اس بچاری کو انصاف پانے کے لئے گزشتہ دن اپنے خون سے مودی اور یوگی کو خط لکھنا پرا کہ مجھے انصاف دو۔ پاکستان میں آٹھ سالہ زینب کے ساتھ وہ وحشیانہ ظلم ہو ا، اُف ! اللہ رحم کرے، اور پھر کٹھوعہ میں آٹھ سالہ آصفہ بانوکی دردناک آبروریزی ا ور قتل پر انسان تو انسان حیوان بھی بھی شرمائیں ۔ کیایہی انعام ہمار ا جمہوری ا ور لبرل معاشرہ عورتوں کو دے رہاہے؟ ہریانہ کی گلوکارہ کا وحشیانہ قتل بھی کیا آزادی ٔ نسواں کا عنوان ہے ؟
آصفہ کے ماتم میں ریاست میں درددل رکھنے والا تمام انسان سوگوار ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہاں تھی آٹھ دن تک پولیس جب آصفہ کو کٹھوعہ میں درندے نوچتے رہے ؟ سوال یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ آج تک آسیہ اور نیلوفر کے قاتل قانون کامذاق کیوں بنارہے ہیں ؟ کشمیری عورتوں کی عزتوں کے ساتھ کھلوار کر نے والے کچھ بھی کر نے کو آزاد کیوں ہیں ؟ کیا عورتوں کے حقوق پر بھاشن دینے والے بتا سکتے کہ برما کی روہنگیا عورتوں کی مظلومیت پر آپ کے سینے میں درد کی ٹیسیں کیوں نہ اٹھیں ؟ بہر حال آج کل جدیدیت کی ماری دنیا کے کسی بھی کونے میں عورت خود کو محفوظ نہیں پاتی ، اسے شرف نہیں بلکہ کھلونے کی حیثیت حاصل ہے ۔حد یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر بہت ساری خواتین کی عزتوں کے ساتھ کھیلنے کے دعوے سامنے آرہے ہیں ۔ یہ حواس باختہ اور اخلاق باختہ شخص عورتوں کے حقوق کی بات کس منہ سے کرے؟ بہر حال عورت کو اصل حقوق اور حقیقی آزادی کا وہ حق دیا جائے کہ وہ خود کو اور اپنی عزت کو محفوظ دیکھے جیسے قرون اولیٰ کی شان تھی۔ اگر ان کے حقوق پر داکے ڈالنے والے مجرموں کو پکڑ کر چوراہوں پر سرِعام سزا دی جائے تو ممکن ہے کہ آصفہ اور زینب ، دامنی جیسے دلبرداشتہ کر نے والے سانحات رونما نہ ہوں ۔یقینا اس وقت سب سے زیادہ خواتین کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ احساس ِ تحفظ ہے، عزت کی حفاظت ، جان کی امان اور زندگی میں آگے بڑھنے کیے مواقع اورضمانتیں۔۔کل پرسوں فیس بک پر ایک نوجوان لڑکی کی آصفہ کے متعلق تحریر کے اخیر میںیہ لکھا تھا’ یا اللہ! اس ظالم دُنیا کے مردوں سے ہماری حفاظت فرما‘‘۔ آپ اندازہ لگاؤ کہ کس درجہ کی بے چینی ہے خواتین کی صفوں میں۔ یہ دعا ہی نہیں بلکہ احتجاج بھی ہے ،ہم سب کے منہ پر طمانچہ بھی ہے اور ایک لمحہ فکریہ بھی ہے ۔
رابطہ 9419256529