تبصرہ
ڈاکٹر گلزار احمد وانی
صنف افسانہ کی مقبولیت بقیہ اصناف کے ساتھ ساتھ برابر جاری و ساری ہے۔ منشی پریم چند سے لے کر دور حاضر تک کے تمام افسانہ نگاروں نے مذکورہ صنف میں طبع آزمائی کرکے زمانے کی اتھل پتھل کو تخلیقیت کے دائرے میں لایا ہے۔ محمد یونس جدید تر نسل کے ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جو کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کا پہلا عشق شاعری سے رہا ہے۔ غزل باقی شعرا کی طرح انکی بھی بے حد پسندیدہ صنف سخن ہے اور ان کا شاعری کی طرف ذہنی میلان بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افسانے کی طرف بھی انہیں کافی کھچائو نظر آتا ہے ۔ان کا پہلاافسانوی مجموعہ ” خوابوں کی کسک “ حال ہی منظر عام پر آیا ہے۔ جس میں ان کے بیس افسانے تخلیقیت کا جامہ اوڑھے ہوئے ہیں ۔ جو کئی زاویوں سے ایک قاری کا ذہن اپنی اور کھینچنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ مذکورہ مجموعے میں جہاں ان کی نظر سماج کے ان افراد پر رہتی ہے جنہوں نے صالح معاشرے کو بگاڑنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی ہے وہیں وہ افراد بھی ان کے زیر نظر ہیں جن کے ساتھ ان کی اٹھک بیٹھک رہتی ہے۔ غرض کہ سماج کے سبھی افراد پر ان کی نظر گہری ہے۔ ان کے گھیرائو میں وہ اپنے تجربے مشاہدےاور تخلیق کے نت نئے رنگ نکھارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد یونس کی افسانہ نگاری کے چند محاسن یہ ہیں
١۔ وہ اپنے افسانوں کو بلا ضرورت پھیلاتے نہیں ہیں ۔وہ اتنا ہی کہتے ہیں جتنا افسانے کی ضرورت ہے۔
٢۔ ان کے افسانوں میں ان کا اپنا ماحول نظر آتا ہے جس سے انہیں اپنی بات کہنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ہے۔
٣۔ ان کے یہاں کہانیوں میں افسانوی رنگ اس وقت ملتا ہے جب قدرتی طور پر ایسے واقعات کا در آنا ہوتا ہے جب اس کے سوا اور کوئی آپشن باقی نہیں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر محمد یونس کی اولین کا وشوں میں کئی افسانے افسانوی رنگ میں رنگے ہوئے ضرورنظرآتے ہیں ۔جن میں عبرت اور طلاق کے ساتھ کئی اور افسانے بھی شامل ہیں۔
ان افسانوں میں افسانہ نگار کا ذاتی تجربہ ، مشاہدہ اور تخلیقیت پر دسترس اور ان کا فنی شعور خوب نظر آتا ہے۔ ایک جگہ ہربرٹ ریڈ نے لکھا ہے ”موسیقار ہی وہ واحد ہستی ہے جو اپنے شعور کے بطون سے فنی تخلیق کو جنم دیتا ہے ورنہ دوسرے فنکار تو ظاہر کی دنیا سے کچا مواد حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔مثلاً مصور رنگ اور صورت کا دست نگر ہے اور شاعر الفاظ کا اور معمار مجبور کہ چونے گارے کے ریختہ میں اپنی ذات کا اظہارکرے مگر ذریعہ چاہے کوئی بھی کیوں نہ استعمال کیا جائے مقصد اس کا صرف یہ ہوتا ہے کہ شےیا مظہر کو اوپر اٹھا کر ”غنائیت کی سطح“ پر پہنچا دیا جائے تھوڑے سے تصرف کے ساتھ یہی بات کہانی لکھنے کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ چاہےوہ کردار کے نقوش کو اجاگر کریں یا ٹائپ Type کو بروئے کار لائیں ۔ بند ماحول کو پیش کریں یا کشادہ کینوس کوسامنے لائیں قریب سے نظارہ کریں یا دور سے نظر ڈالیں وہ ہر حال میں مجبور ہیں کہ کہانی کی سطح پر پہنچنے کی کوشش کریں بصورت افسانہ جواب مضمون بن جائے گا ”
(افسانے کا فن ۔۔۔۔وزیر آغا اردو افسانہ روایت اور مسائل مرتبہ گوپی چند نارنگ ص نمبر ١١٥)
محمد یونس نے بھی کہانی تک پہنچنے کی ایک دلیرانہ کوشش کی ہے جس میں آپ بہت حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں البتہ کہیں کہیں افسانہ مضمون کی صورت میں کہانی کی لطافت میں آڑے آکر اس کی چاشنی میں رخنہ اندازی پیدا کرتا ہے جس سے افسانہ میں بدمزگی سی رہتی ہے۔
محمد یونس کا چونکہ یہ پہلا افسانوی مجموعہ ہے اس لیے اسےشفقت کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ آپ نے اپنے افسانوں میں جن کرداروں کو پیش کیا ہے ان کے مکالمے اپنے ماحول کے بمطابق ہیں اور وہی افراد بھی ان کی کہانیوں کے کردار ہیں جن کی زندگیوں کے آپ بالکل پاس پاس رہ چکے ہیں تبھی اتنی کاٹ ان کے افسانوں میں موجود ہے۔ آپ نے معاشرے کے لوگوں کا دکھ درد غم وخوشی مسرت و الم اور مسرور ومغرور کیفیات کا بغور جائزہ لیا ہے اور افسانے کے کینوس پر پیش کرکے اپنے معاشرے کی بخوب مرقع کاری کی ہے ۔ پیش ہیں چند اقتباسات جن میں ان کی بات میں ہمدردی اور سچائی مضمرہے۔
” زبیدہ پر ایسی قیامت ٹوٹ پڑی کہ اس کی ہمت جواب دینے لگی۔ وہ حاملہ تھی اور محض اس امید پر زندہ تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ بشیر میں تبدیلی آ جائے گی مگر یہ محض اس کا گمان تھا “ افسانہ ۔۔۔ طلاق
افسانہ طلاق میں انہوں نے ایک ایسی سچویشن کو پیش کیا ہے کہ موجودہ سماج میں لڑکے شراب اور نشے کی حالت میں اپنی خوشگوار زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے گھروں کو بھی برباد کر دیتے ہیں ۔گھر کا پر سکون ماحول کیسے بگھاڑتے ہیں اور اپنی بیویوں پر کس قدر ظلم کرتے ہیں بڑے ہی فن کارانہ انداز سے پیش کیا ہے۔اسی طرح افسانہ ” نیا سبق“ میں ایک اور کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
”میرے دوست میرے یار حوصلہ رکھو نا امید بالکل بھی مت ہو۔ تم تو جانتے ہو کہ ناامیدی کفر کے مانند ہے لہٰذا ایسی باتیں نہیں کیا کرتے“۔
اس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے اندر صحیح معاشرے کی از حد فکر ہے آپ منشی پریم چند کی طرح گائوں کی زندگی کے رنگ اور ماحول دکھانے میں ابھی محو ہیں ۔آپ زندگی کہ ناہمواریوں کو سمجھتے ہیں انہوں نے لوگوں کے درد کو بھوگا ہے تبھی ان کہانیوں کاروپ دھارن کرتے ہوئے طمانیت محسوس کرتے ہیں اور یہ ایک افسانہ نگار کی کامیابی ہوتی ہے جب کسی بھی سچویشن کو بیان کرنے میں کشف کا جامہ اٹھاتے ہیں اور ان ناسور و مضر بیماریوں کا قلع قمع اپنے قلم کے طاقت سے کرتے ہیں۔ یہی محمد یونس کا کمال فن بھی ہے۔
ان کے افسانوں میں جو قدرتی مناظر پیش کئے گئے ہیں ان سے کشمیر کے موسم کی صحیح عکاسی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے برف پوش پہاڑ، جھیلیں ، جاڑے کی یخ بستہ راتیں ، اوس ، ندی نالوں میں بہتے جھرنے ، جنگلات کے پیڑجن میں دیودار ، بدلو ، کائیرو ،چناروں کے ٹھنڈے سائے، یہاں کی سایہ دار سڑکیں ،سیب کے باغات اور حکیم منظور کی طرح اخروٹ اور خوبانیوں کا ذکر بھی کہیں کہیں افسانے کی حرمت اور رونق میں چار چاند لگا دیتے ہیں ۔اپنے وطن کی ہر ایک شے سے جس طرح افسانہ نگار کو لگائو ہےاور محبت ہے من و عن انہوں نے ان چیزوں کا ذکر اپنی کہانیوں میں کیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے میلوں ٹھیلوں اور یہاں کی تہذیب و ثقافت کو بھی بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جس سے ان افسانوں کی اہمیت و افادیت میں اور بھی چاشنی برقرار رہتی ہے۔ ان کے یہاں جتنی بھی کہانیاں پیش ہوئی ہیں وہ تقریباً سب کی سب انہوں نے اپنے ہی معاشرے سے انتخاب کی ہیں ان کے ساتھ افسانہ نگار کا میل ملاپ رہا ہے اس لئے وہ کہانیاں حقیقی روپ لئے ہوئے ہیں ۔اور یہ شائبہ کہیں نہیں ہوتا ہے کہ کوئی بھی ان کی خلق شدہ کہانی فرضی ہے۔ اس سے افسانہ نگار کی ژرف نگاہی، جو افسانے کے تئیں ہے، خوب درشاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ایک چیز جوان کے فن پر دسترس دکھاتی ہے وہ کہ وہ کسی بھی کردار کے نفسیاتی اور جذباتی پہلوئوں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے افسانے کی تار پود بنتے ہیں ۔اور کہانی کے پس و پیش میں اور اس کے ارتقا میں ان چیزوں کا کافی خیال رکھتے ہوئے اپنی کہانی کو پائے تکمیل تک پہچاتے ہیں ۔جس میں کچھ کہانیاں ٹریجڈی پن پر اور کچھ تو نشاطیہ طرز پر اختتام کو پہنچتی ہیں۔ یہ ان کے افسانوں میں ایک خاص وصف ہے ۔
میں انہیں اس افسانوی مجموعے پر صمیم قلب سے مبارکباد دیتا ہوں اور امید قوی ہے کہ ڈاکٹر محمد یونس آگے بھی اسی شد و مد کے ساتھ اپنے افسانوی سفرپر خوشی خوشی گامزن ہوں گے۔ اور یہاں کے مستند افسانہ نگاروں کی صف میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔
جیسا کہ مندرجہ بالا میں مذکور ہے کہ محمد یونس کہیں کہیں افسانہ نہیں بلکہ مضمون لکھنے لگتے ہیں اسی طرح کےاعتراضات کرشن چندر پر بھی اول اول کئے گئے ہیں۔ بقول آل احمد سرور ”ان کے جدید افسانوں میں ایک روشن سیاسی تصور کی جھلک بھی ہے ۔ان کے افسانوں پر اعتراضات کئے گئے ہیں۔ بعض اوقات وہ افسانہ نہیں مضمون لکھنے لگتے ہیں۔“
(اردو افسانہ روایت اور مسائل مرتبہ۔۔۔ گوپی چند نارنگ ص نمبر ١١١
ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی ایڈیشن ٢٠٠٤)
محمد یونس کو اپنے گردوپیش پر گہری نظر ہے۔ وہ ایک نبض شناس تخلیق کار ہیں اور انہیں ہر ایک کردار کے اندر ایک ایک کہانی نظر آتی ہے ۔ وہ سماج کے تغیر پذیر حالات کو صحیح معنوں میں اپنے قلم کی جنبش سے صفہ قرطاس پر بکھیرتے ہیں۔ان کے کردار اپنے ہی سماج کے ہیں جن سے افسانہ نگار اپنی قربت اور دوری کے احساسات اور تعلقات کو بے تکلف انداز میں بیان کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔
مجھے محمد یونس میں ایک بہت بڑا قلم کار اور کہانی کار نظر آرہا ہے۔ اگر اس کا قلم اسی نہج پر قائم رہا تو ان کی اہمیت سے کوئی ایک منکر نہیں ہوگا ۔
���
ٹینگہ پونہ پلوامہ
موبائل نمبر؛7006057853