خوشنویس میر مشتاق
خواب دیکھنا ایک فطری عمل ہے۔ ان کا انسانی زندگی میں بڑا عمل دخل ہے۔ ہر بنی نوع اِنسان کا خواب ہوتا ہے۔ ہر انسان خوابوں کے ساتھ ہی پرورش پاتا ہے ۔ خواب کس کے پاس نہیں ہوتے ۔ شاید ! ہی دنیا میں کوئی ایسا انسان ہو جو خواب نہ دیکھتا ہو۔ کہتے ہے نا بادشاہوں کے بھی خواب ہوتے ہیں ۔ لیکن! خواب بادشاہوں کے بھی پورے نہیں ہوتے۔ خواب چاہیے چھوٹے ہو یا بڑے ہر کوئی دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ خواب وہ ہیں خواہ کُھلی آنکھوں سے دیکھو یا بند آنکھوں سے دیکھنا ہر کوئی پسند کرتا ہے ۔ خواب دیکھنے والا چھوٹا ہو یا بڑا ، بوڑھا ہو یا جوان ، مرد ہو یا عورت ، ، امیر ہو یا غریب اور شاہ ہو یا گدا ہوتے تو سبھی کے پاس ہیں، فرق صرف اِتنا ہےکہ کوئی دن کی تیز روشنی میں کُھلی آنکھوں سے خوابوں اور خیالوں سے لُطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے تو کوئی رات کی تاریکی میں بستر پر لیٹے لیٹے خوابوں کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے۔ اِنسان کھاتے پیتے ، جاگتے سوتے ، اٹھتے بیٹھتے حتٰی کہ راہ چلتے چلتے بھی خواب دیکھنا پسند کرتا ہے۔
ویسے خواب دیکھنے کیلئے روپیوں پیسوں کی ضرورت پڑتی نہ محنت و مشّقت کی۔خواب دیکھنے کا کوئی اصول اور ضابط بھی نہیں ہوتا۔ خواب دیکھنے کیلئے امیر اور غریب ہونا بھی لازمی نہیں ہے ۔ خوابوں کا کیا؟ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ خواب دیکھنے کیلئے کوئی حد مقرر ہے نہ عمر ۔ خواب دیکھنے کیلئے محل کی ضرورت ہے نہ جھونپڑی کی۔ خواب دیکھنے کیلئے وقت کا بھی کوئی تعین نہیں ہے۔ خواب کہیں بھی اور کسی بھی وقت آ سکتے ہیں ۔ خواب دیکھنے کیلئے ذات پات اور رنگ ونسل کی بھی کوئی شرط ضروری نہیں ہے۔ یہ بلا امتیاز و تفریق کے کسی کو بھی آسکتے ہیں۔ دن ہو یا رات فقط نیم دراز ہوکر تکیے سے ٹیک لگاتے ہی خوابوں کا اڑن کھٹولہ محو پَرواز ہوتا ہے۔ کوئی لمبی اڑان بھر کر زمین و آسمان کی وسعتوں سے ہمکنار ہو کر محض وقتی اور عارضی ہی سہی سکون حاصل کر لیتا ہے تو کوئی سطح زمین پر رہ کر ہی خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے ہو آتا ہے ۔ کوئی اپنی محرومیوں اور ناکامیوں سے راہ فرار حاصل کرنے کیلئے خواب دیکھتا ہے تو کوئی وقتی ہی سہی اپنی خواہشوں اور آرزئوں کی تکمیل کرتا ہے۔
ویسے خواب حسین بھی ہوتے ہیں تلخ اور ترش بھی ہوتے ہیں ۔ کبھی یہی خواب اُمید بھی دِلاتے ہیں تو کبھی یہی خواب آس میں نِراس بھی کر دیتے ہیں۔ ہر انسان کا خواب ہوتا ہے ۔ ہر کوئی خواب دیکھنے کا کوئی نہ کوئی مقصد اور منزل ضرور رکھتا ہے۔ کوئی شادی کرنے کے خواب دیکھتا ہے تو کوئی شادی شدہ زندگی سے دستبردارہونے کے خواب دیکھتا ہے ۔ بچوں کو جلدی بڑا بننے کا خواب ہے تو بڑوں کو سدا جوان رہنے کا خواب ہے ۔ غریب کو امیر بننے کا خواب ہے تو امیر کو اور زیادہ امیر بننے کا خواب ہے۔ کوئی بڑا آفیسر بننے کے خواب دیکھتا ہے تو کوئی بڑا بزنس مین بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ کوئی اپنے پڑوسیوں سے ہمسری کے خواب دیکھتا ہے۔ تو کوئی اپنے رشتہ دروں سے آگے نکلنے کے خواب دیکھتا ہے۔ کوئی شہرت حاصل کرنے کے خواب دیکھتا ہے تو کوئی دولت کمانے کے خواب دیکھتا ہے ۔ کوئی اپنی بساط کے مطابق خواب دیکھتا ہے تو کوئی اپنی اوقات سے باہر نکل کر خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے ہو آتا ہے ۔ کوئی کسی پر مر مٹنے کے خواب دیکھتا ہے تو کوئی کسی کو مارنے کے خواب دیکھتا ہے۔ کوئی ماضی کی حسین یادوں میں دوبارہ واپسی کے خواب دیکھتا ہے تو کوئی مستقبل کی بہتری اور تابناکی کے خواب سجاتا اور سنوارتا ہے۔
خواب ہر ایک کی ملکیت ہوتی ہے۔ خوابوں پر کسی کی اِجارہ داری نہیں ہوتی ۔ یہ خواب دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ خوابوں کو کس رنگ میں رنگنا چاہے۔ خوابوں کے دو رنگ ہوتے ہیں ایک مثبت رنگ اور دوسرا منفی رنگ ۔ مثبت رنگ میں پرورش پانے والے خواب انسانی ذہن کو سکون اور پختگی بخشنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔ مثبت خیالی کے خواب ہمیشہ منزل کا صحیح تعین کرتے ہیں۔ منفی خواب دیکھنے یا سوچنے والے ہمیشہ حسد اوربدی کی اور گامزن رہتے ہیں ۔ منفی خواب انسانی ذہن کی تخلیقی قوت کو مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ خوابوں کا کوئی نہ کوئی نیک مقصد اور کوئی نہ کوئی نیک منزل لازمی ہونی چاہیے ۔ بنا مقصد یا بنا منزل کے خواب بے لگام گھوڑے کے مِثل بھٹکتے پھرتے رہتے ہیں ۔ وہ خواب فقط خواب ہی رہتے ہیں جن خوابوں کا کوئی نیک مقصد نہ ہو ۔ ہمارے خواب وہ ہوتے ہیں جن کا حقیقت کی دنیا سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔
تقدسّ مآب ہستیوں کے بھی خواب ہوتے تھیں اللہ کا قُرب حاصل کرنے کے خواب ، اپنی آخرت سنوارنے کے خواب ، راہِ اسلام میں خود کو نچھاور کرنے کے خواب ، ہمیشہ دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی محسوس کرنے کے خواب اور ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک ہونے کے خواب۔۔۔!
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا عجیب ہی حال ہے۔ یہاں ہر کوئی راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھنے پر بضد ہے۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال ہے ۔ کاش ! میں کروڑ پتی ہوتا ۔ کاش ! میرا بہت بڑا بزنس سیٹ اپ ہوتا ۔ کاش! میرا بہت بڑا عالیشان گھر ہوتا وغیرہ وغیرہ ہمارے یہاں اکثریت منفی خواب دیکھنے یا سوچنے والوں کی ہی زیادہ ہے۔ ہمارے خوابوں کا معیار بالکل ہی پست اور گٹھیا قسم کا ہوتا ہے۔ ہمارے خواب وہ خواب ہوتے ہیں جس میں نہ ہم خود خوش رہ سکتے ہیں اور نہ دوسروں کو خوش رہنے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ ہمارے خواب فقط ایک دوسرے کو مرعوب کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے خواب ہوتے ہیں۔
بہرحال ہمارے خواب ، خواب ہی ہوتے ہیں سَراب ہوتے ہیں جو سطح آب پر لکیر کھنچنے کے مترادف ہے۔ ہمارے خواب دیکھنے یا نہ دیکھنے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہوتا وہی ہے جو ہماری قسمت میں لکھا ہوتا ہے ۔ اللہ ربّ العزت کے ہاں باضابط ایک نظام ہے ، ایک قانون ہے۔ یہاں پر قرآن حکیم کی یہ آیت صادق آتی ہے۔ ( وَتعِزُّ مَن تَشعَا وتذِّلُ مَن تَشعَا )
بسا اوقات انسان کوئی بھی کامیابی حاصل کرکے خود کو” تیس مار خان “سمجھنے لگتا ہے۔ نادان یہ سمجھتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی مجھے آج حاصل ہوا ہے یا ہو رہا ہے یہ صرف اور صرف میری محنت کا ثمرہ ہے۔ انسان ہر ایک چیز پر خود کو قادر سمجھنے لگتا ہے۔ نادان یہ نہیں کہتا کہ آج مجھے جو کچھ بھی ملا ہے یا حاصل ہوا ہے فقط ربّ کے فضل و کرم سے ہوا ہے۔ نعوذ باللہ ! کیا ربّ کی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟ کہ انسان کوئی بھی کامیابی حاصل کرنے پر شیخیاں بِگھارنے لگتا ہے۔ اور یہی ” انّا “ انسان کو ایک دن لے ڈوبے گی۔
ہوتا وہی ہے جو ہمارا ربّ چاہتا ہے۔ جب سب کچھ انسان کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہوتا ہے تو انسان وہاں سے مایوس ہوتا ہے جہاں سے اُس کا گمان ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے سے ہماری قسمت تو نہیں بدلی جائے گی ۔ ہمارے چاہنے اور نہ چاہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہوتا وہی ہے جو منظور خُدا ہوتا ہے۔۔۔!!!
���
ایسو،اننت ناگ کشمیر،موبائل نمبر؛9682642163