ڈاکٹر غلام قادر لون
تاریخ اسلام پر فکری لحاظ سے سب سے زیادہ اثرات حضرت علی ؓ نے چھوڑے ہیں۔ان کے بارے میں مسلمانوں میں کئی فرقے افراط و تفریط میں پڑگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ انہیں بلا کر ارشاد فرمایا تھا کہ تیری مثال حضرت عیسٰیؑ جیسی ہے، یہود کو ان سے اتنی نفرت تھی کہ ان کی ولادت تک کو ناجائز بتایا اور نصاریٰ نے ان سے اس قدر محبت کی کہ انہیں ایسے درجے پر پہنچایا، جس کے وہ مستحق نہ تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت علیؓ نے شہادت کے بعد تاریخ کو جس پیمانے پر مثاثر کیا ہے ،اس کی نظیر نہیں ملتی ۔مگر ان کی شخصیت کے بارے میں مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں یہ بات مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں تمام صفات حسنہ جمع کئے تھے۔ ان کے جو فضائل اور مکارم اخلاق حدیث و سیر کی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں، ان پر ایک مستقل تصنیف تیار ہوسکتی ہے۔ یہاں ان کی عظیم شخصیت کے ایک پہلو کا سرسری تذکرہ ہوگا۔
رسول اللہؐ نے حضرت علیؓ کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ امت کے بہترین قاضی ہیں۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ ہم میں بہترین قاضی حضرت علیؓ ہیں ۔ انہوں نے بارہا حضرت علی ؓ کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔ حضرت علی ؓ کی اس خصوصیت کا مورخین نے اکثر ذکر کیا ہے۔ان کے بعض فیصلوں کی مثالیں ذیل میں دی جاتی ہیں۔
حضرت علیؓ کے دور میں دو آدمی سفر پر نکلے۔ ایک کے پاس پانچ اور دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں۔ اثنائے سفر دونوں ایک جگہ پہنچے اور کھانا کھانے لگے۔ ایک شخص وہاں سے گزررہا تھا، دونوں نے اسے بھی دعوت دی اور کھانے میں شریک کرلیا ۔کھانے سے فارغ ہوئے تو تیسرے شخص نے انہیں آٹھ درہم دئے اور رخصت ہوا۔ پانچ روٹیوں کے مالک نے تین روٹیوں والے کو تین درہم دئے مگر اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کیا کہ مجھے چار درہم دیجئے۔معاملہ طول پکڑتا گیا تو دونوں حضرت علی ؓکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرا بیان کیا۔ ماجرا سنتے ہی حضرت علی ؓ نے تین روٹیوں والے سے کہا کہ جب تمہارا بھائی تمہیں تین درہم دیتا تھا تو آپ لیتے اور بات ختم کرتے۔ اس شخص نے جواب دیا ۔ حضور آپ انصاف کیجئے اور مجھے میرا حق دلوائے۔ حضر ت علی ؓنے کہا کہ انصاف کی رو سے آپ کو صرف ایک درہم ملتا ہے۔ اس شخص نےکہا کہ حضور آپ مجھے ذرا سمجھائیں کہ مجھے صرف ایک درہم کیوں ملتا ۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ آپ تین لوگوں نے کھانا کھایا ہے۔ آپ کے پاس آٹھ روٹیاں تھیں۔ روٹیوں کے تین تین حصے میں آٹھ ٹکڑے آئے۔ آپ کے بھائی کے پاس پانچ روٹیاں تھیں جن کے پندرہ ٹکڑے ہوئے ۔ آٹھ ٹکڑے اس نے خود کھائے اور سات بچ گئے۔ آپ کی تین روٹیوں کے نو ٹکڑے ہوے آٹھ آپ نے کھائے اور ایک بچ گیا۔ ان کے سات ٹکڑے اور آپ کا ایک ٹکڑا تیسرے شخص نے کھائے۔ اس نے آپ کے بھائی کو سات درہم اور آپ کو ایک درہم ملے گا۔ یہ فیصلہ سن کر وہ شخص ایک درہم پر راضی ہوا۔ جن لوگوں نے یہ فیصلہ سُنا، وہ حضرت علیؓ کی ذہانت دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے ۔
حضرت علی ؓ کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ سترہ اونٹوں میں تین دعوے دار تھے۔ ایک کو اونٹوں کا نصف حصہ ملنا تھا۔ دوسرے کو تہائی حصہ ملنا تھا اور تیسرا نویں حصے کا دعوے دار تھا۔ شرکاء کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اونٹوں کو کیسے تقسیم کریں کیوں کہ کسی بھی صورت میں کسر لازم آرہا تھا۔ اس لئے وہ یہ مقدمہ حضرت علی ؓ کی خدمت لے گئے۔ حضرت علی ؓ نے ان سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو اپنی طرف سے ان میں ایک اونٹ بڑھادوں ۔ انہوں نے اجازت دی تو حضرت علی ؓ نے ایک اونٹ کا اضافہ کیا، جس سے اونٹوں کی تعداد اٹھارہ ہوگئی ۔ اب حضرت علی ؓ نے نصف کے دعوے دار کو نو اونٹ دے۔ تہائی والے کو چھ اونٹ اور نویں حصے کے دعوے دار کو دو اونٹ دئے۔ تقسیم شدہ اونٹ (2+6+9=17)سترہ ہوگئے۔ ایک اونٹ بچا جسے آپ نے واپس لیا۔ فیصلہ سن کر تینوں شرکاء مطمئن ہوگئے اور اپنا اپنا حصہ لے کر چل دئے۔
ایک مرتبہ آپ ؓ کے پاس ایک مقدمہ آیا۔ ایک شخص تلوار ہاتھ میں لئے دوسرے شخص کا تعاقب کر رہا تھا۔ راہ میں ایک اور شخص نے بھاگنے والے شخص کو پکڑا اور تب تک پکڑ کے رکھا، جب تک تعاقب کرنے والا سر پر نہ پہنچا۔ ایک اور شخص یہ سب دیکھ رہا تھا مگر نہ اس نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور نہ زبان سے کچھ کہا بلکہ کھڑا رہا اور تماشا دیکھتا رہا۔ تعاقب کرنے والے شخص نے تلوار سے بھاگنے والے شخص پر وار کیا ور اسے قتل کرڈالا۔ حضرت علی ؓ کے پاس جب معاملہ پہنچا تو انہوں نے قاتل کو جلاد کے سپرد کرکے قتل کروایا۔ پکڑنے والے شخص کو عمر قید کی سزا سنائی اور تماشا دیکھنے والے شخص کی دونوں آنکھیں نکلوائیں۔حضرت علیؓ کے اس قسم کے فیصلے جنہیں پڑھ کر بڑے بڑے عقلاء کے سر چکرا جاتے ہیں۔ بڑی تعداد میں کتابوں میں درج ہیں۔یومِ شہادت ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ھ کی مناسبت سے یہاں اس قدر کافی ہے۔
(حدی پورہ رفیع آباد،رابطہ۔9797944035)