عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر // مہاراجہ ہری سنگھ کے دور کی بندوق چھاونی سے لیکرخواتین کیلئے مخصوص گونی کھن مارکیٹ کا سفر کئی دہائیوں کاہے۔ یہ وہ جگہ ہے جس میں وہ سب کچھ ہے جو ایک خواتین خریدنا چاہتی ہیں۔گونی کھن مارکیٹ وادی کے خواتین کی پہلی پسندہے۔ یہاں سوئی سے لے کر جدید لباس تک سب کچھ دستیاب ہے۔انتہائی بھیڑ اور مصروف بازار خصوصی طور پر خواتین خریداری پر منحصر ہے۔مارکیٹ میںبہت سی چھوٹی دکانیں ہیں جو خواتین سے متعلق اشیاء سے بھری پڑی ہیں،جو اسے خواتین کے لیے ون اسٹاپ شاپ بناتی ہیں۔
خواتین کا خیال ہے کہ یہ خریداری کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔ گونی خان ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر فاروق احمد خان کا کہنا ہے کہ خواتین کی جانب سے خریداری کے لیے اس بازار کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ واحد جگہ ہے جو اعلی اور متوسط طبقے دونوں کی پسند کو پورا کرتی ہے۔ اسکے علاوہ یہاں کے دکاندار پروفشنلز ہیں جو گاہوں کی عزت کرنا اپنی اولین ترجیح مانتے ہیں۔سری نگر شہر کے وسط میں واقع تاریخی گونی کھن بازار کبھی ایک ویران جگہ تھی جس میں چند دکانیں تھیں۔ 1950 کے اوائل میں بازار میں صرف ایک قصاب، دودھ والا اور ٹوپی بیچنے والے دکان تھے۔ اس کے علاوہ مہاراجہ ہری سنگھ کے شاہی گھوڑے مبینہ طور پر بازار کے پیچھے واقع بندوق چھاونی میں رکھے جاتے تھے۔ مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ 80 کی دہائی کے اوائل تک گونی خان سڑک پر اکا دکا لوگ ہی چلتے تھے۔یہاں فوڑ اینڈ سپلائز سٹور اوت یونانی ڈسپنسری سے وگوں کا تھوڑا بہت رش رہتا تھا۔ لیکن مارکیٹ کو 80کی دہائی کے وسط میں جموں کے ایک ریڈی میڈ گارمنٹس کے تاجر ایس کمار نے پہچان دلائی۔ایس کمار نے گونی خان میں بچوں کے لیے ایک ریڈی میڈ کپڑے کی دکان کھولی تھی۔ وہ ایک آٹو رکشا میں کشمیر کے تقریباً تمام اضلاع کا سفر کرتے ہوئے گونی خان میں ایس کمار کی سیل کا نعرہ لگا کر اپنی دکان کی تشہیر کرتے رہے۔ اسکے بعد1990کی دہائی سے مارکیٹ میں ہر روز تہوار جیسا میلہ لگا رہا۔ خواتین کا اس بازار میں ہجوم ہوتا ہے وہ یہاں فروخت ہونے والے سامان کے معیار سے واقف ہیں۔ٹریڈ یونین لیڈر فاروق احمد نے کشمیر عظمیٰ کو تایا کہ مارکیٹ میں قریب 286دکانیں ہیں جو غیر مسلم مرد و خواتین سمیت تقریباً 1500سے زائد لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔انکا مزید کہنا تھا کہ مارکیٹ میں آجکل اوسطاً روزانہ 3کروڑ کی خریداری ہوتی ہے۔