سرینگر//نیشنل کانفرنس نائب صدر عمرعبداللہ نے کہا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ملک کی واحد ریاست نہیں جسے خصوصی درجہ حاصل ہے، لیکن حملے صرف جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن پر کئے جاتے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن خطرے میں ہے اور گذشتہ5 برسوں سے بی جے پی حکومت سے اس خصوصی پوزیشن کو مزید خطرہ بڑھ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر دفعہ370 اور دفعہ 35 اے پر نئے سرے سے بحث شروع کی گئی تو الحاق پر بھی سوالات اٹھیں گے۔ سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بھاجپا پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے عمر نے کہا ’’ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ہٹایا جاناچاہئے، آخر کیسے، جموں کشمیر ملک کا حصہ خصوصی پوزیشن کی ہی بنیاد پر بنی ہے اگر یہ خصوصی پوزیشن نہیں دی گئی ہوتی تو مہاراجہ نے الحاق نہیں کیا ہوتا‘‘انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے صرف کشمیر وادی کے مسلمانوں کے لئے ہیں جب کہ ان دفعات سے جموں اور لداخ کو بھی بچایا گیا ہے۔مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی طرف سے گذشتہ روز دئے گئے بیان کہ جموں کشمیر میں دفعہ 35 اے غربت کی سبب ہے، پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے۔عمر نے کہا ’’جیٹلی بھول گئے ہیں کہ ملی ٹینسی سے پہلے یہاں ایسی کوئی شکایت نہیں تھی، جموں کشمیر کو نقصان دفعہ 35 اے سے نہیں بلکہ بندوق اور ملی ٹینسی سے ہوا ہے، ہماری ریاست کو جی ڈی پی میں دوسری ریاستوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا، شاید ہی کوئی انڈسٹری تھی جو یہاں قائم نہیں تھی‘‘۔انہوں نے کہا کہ ارون جیٹلی کے بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی سوچ جموں کشمیر کے حوالے سے صحیح نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’آج اگر یہاں ہوٹل موجود نہیں ہیں تو اس کی وجہ دفعہ 35 اے نہیں بلکہ مودی کے کارنامے ہیں، اگر مودی نے ریاست کو صحیح سلامت رکھا ہوتا اور اگر 2014 کے حالات کو بحال رکھا گیا ہوتا تو یہاں کئی گنا زیادہ ترقی ہوتی‘‘۔انہوں نے کہا ’بی جے پی کو سوچ سمجھ کر ایسے سوالات اٹھانے چاہئے جب راج بھون میں بی جے پی کاایک گورنر کشمیر کے ساتھ اقتصادی بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو اس وقت جیٹلی یا بی جے پی کے دوسرے لیڈروں نے یہ نہیں کہا کہ ملک کے ایک حصے کو اقتصادی بائیکاٹ کا نشانہ بنانا غیر آئینی ہے‘۔انہوں نے کہا گذشتہ تین سالوں کے دوران کرسی بچانے کے لئے خصوصی پوزیشن کو بچانے کی موثر کوشش نہیں کی گئی۔عمر عبداللہ نے کہا 'آنے والے عام اوراسمبلی انتخابات ریاست کی خصوصی پوزیشن کو بچانے کے لئے سب سے ضروری انتخابات ہوں گے، آج کچھ طاقتیں نہ صرف بی جے پی بلکہ ریاست میں بی جے پی پراکسی پارٹیوں سے ووٹروں کو بچنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ جماعتیں تب تک چین سے نہیں بیٹھ سکتی جب تک نہ ہماری خصوصی پوزیشن کو تہس نہس کیا جائے گا'۔
آئینی رشتے کوقبضے میں بدلنے کی کوشش
بھاجپا خود کو عدالت عظمیٰ سے بالا تر سمجھتی ہے:پی ڈی پی
سرینگر//مرکزی وزیرخزانہ ارون جیٹلی کے اس بیان کہ دفعہ35Aآئینی طورکمزورہے ،پر اپنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے پی ڈی پی نے کہا کہ بھاجپا ریاست جموں وکشمیر کے بھارت کے ساتھ آئینی رشتے کو قبضے میں بدلنا چاہتی ہے ۔بی جے پی جموں وکشمیر اور مملکت ہندکے درمیا ن قانونی اور آئینی رشتے کو حیلہ سازی اورتخریب کاری نظام کے ذریعے تبدیل کرنے کی سخت کوشش کرتی ہے۔یہ بدقسمتی ہے کہ سنگھ پریوار نے ملک کے ایک معروف وکیل کو سپریم کورٹ کے احکامات، جن کے تحت ماضی میںدفعہ35Aکوایک نہیں دوبار برقرار رکھا گیا ہے، کی مخالفت پر مامور کیا ہے ۔پی ڈی پی نے مزید کہا کہ ایسالگتا ہے کہ سنگھ پریوار خود کوعدالت عظمیٰ سے بالاتر سمجھتا ہے اور اسی لئے جیٹلی نے آئینی طور دفعہ35Aکوکمزورکرنے کی سرپرستی کاراستہ چن لیا ہے ۔ نعیم اختر نے کہا کہ شاید جیٹلی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آئین کی ترتیب اور منظوری کو ئی علیحدہ واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے آئینی وسیاسی تاریخ ہے جو سنگھ پریوار اور ذرائع ابلاغ میں اس کے ساتھی ووٹ بٹورنے کی خاطرنظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اختر نے کہا کہ سنگھ منتخبہ طور تاریخ کاحوالہ دیتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف وہ مغل شہنشاہ بابر کے عہد کے متعلق فائلوں کوکھول کر 500برس قبل کے مقبروں کو کھودتی ہے اور جموں کشمیر سے متعلق وہ معاصر تاریخ پر نظر دوڑانے کیلئے تیار نہیں ہے جو کہ جنوبی ایشیاء میں مملکت کے تعمیرکااہم حصہ ہے ۔جموں کشمیر کا الحاق جدید، سیکولر اورمشمولہ مملکت ہند کے ساتھ دلچسپ تجربہ تھالیکن بدقسمتی سے سنگھ پریوار اور اس جیسی جماعتیں وقت وقت پراس رشتے کوکمزور کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جیٹلی کو ریاستی آئین اور قانون سے متعلق علمیت حاصل کرنی چاہیے اور آرٹیکل 35Aریاست میں سرمایہ کاری کرنے میں کسی بھی طور مانع نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ ریاست سے متعلق پشتینی باشندگان کا قانون کسی بھی طور پر ریاست میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ نہیں ہیں جیسے کہ بجلی سیکٹر، سیاحت، صنعت اور تعلیم اس کی واضح مثال ہے۔انہوںنے بتایا کہ صوبہ جموں میں زیادہ تر صنعتی ادارے غیر ریاستی سرمایہ کاری سے چل رہے ہیں، اسی طرح ریاست میں شعبہ طب کے حوالے سے بھی متعدد معیاری پروجیکٹوں میں بیرونی سرمایہ کاری کارفرما ہے۔پی ڈی پی لیڈر کا کہنا تھا کہ بی جے پی ریاست جموں وکشمیر میں غیر یقینیت کو پروان چڑھا نے کی خاطر خصوصی پوزیشن پر دھاوا بولنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔