سبزار احمد بانڈے
خدمت خلق ایک جا مع لفظ ہے ، یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ خلق مخلوق کے معنی میں ہے اور اس کا روئے زمین پر رہنے والے ہر جاندار پر اطلا ق ہوتا ہے اور ان سب کی حتی الامکان خدمت کرنا ، ان کا خیال رکھنا ہمارا مذہبی واخلاقی فرض ہے، ان کے ساتھ بہتر سلو ک وبر تاؤکی ہدایت اللہ رب العزت نے بھی دی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں تاکید کرتی ہیں ۔ دین میں خدمت خلق کے مقام کو سمجھنے سے اس کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنا آسان ہوجائے گا ۔
خدمت خلق کا مفہوم : خد مت خلق کے لغوی معنی مخلوق کی خدمت کرنا ہے اور اصطلا ح اسلام میں خدمت خلق کا مفہوم یہ ہے کہ رضا ئے حق حاصل کر نے کے لئے تمام مخلوق خصوصاً انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد دینا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ : رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے، تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا ۔ (صحیح مسلم)
رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انسانوں کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تاکیدو تلقین فرمائی ،مظلوموں اور حاجت مندوں کی فریا درسی کی تاکید فرمائی، یتیموں، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سر پرستی کا حکم فرما یا ہے ۔
خدمت خلق وقت کی ضرورت ہے اور بہت بڑی عبادت بھی۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے ۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اﷲ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی ہے۔کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے ۔دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے۔ اپنے لئے تو سب جیتے ہیں، کامل انسان تو وہ ہے ،جو اﷲ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لئے جیتا ہو۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں :
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے
خدمت خلق ایک مقدس جذبہ ہے، جس کی تحریک کے لئے کسی رہبر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ تو دل کا سودا ہے اور رضاکارانہ طور پر کیا جاتا ہے ۔ ایک رضا کار دل سے عہد کرتا ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہر ممکن کوشش کریگا۔ وہ مخلوق کی خدمت کرتے ہوئے تھکتا نہیں ہے۔ بیزار نہیں ہوتا ۔ دکھاوے اور نمائش سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ ایسے لوگ دل میں خوف خدا کے لئے دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی دنیا خوبصورت ہے۔ محتاجوں کے کام آنا‘ بھوکے کو کھانا کھلانا‘ اپاہجوں اور یتیموں کی سرپرستی کرنا‘ یہ وہ نیکیاں ہیں جو امن و آشتی اور انس و الفت کے پھول بکھیرتی ہیں۔ اور دلوں کو تسکین دیتی ہیں۔سماج میں خدمت خلق کرنا ہر انسان پر فرض ہے ۔والدین کی تیمارداری کر کے ان کی دعاںیں لینا بچوں کی سعادت ہے ۔بیواووں کی مدد کرنا عاقبت کو سنوارنا ہے۔ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنا باعث ثواب ہے۔ اس سے نہ صرف اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس عمل سے سکون قلب اور راحت ملتی ہے۔
میرا ماننا ہے کہ اس جزبے کے بغیر سماج کا توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔اگر قدرتی آفات اور لاعلاج امراض میں مبتلا لوگوں کو عین وقت پر امداد نہ کی جائے تو ہر سال ہزاروں لوگ لقمۂ اجل ہو جائیں گے جو پوری انسانیت کے لیے ایک المیہ ہے۔
سماج سیوک ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ محتاجوں او مسکینوں کو ڈھونڈ کر اُن کی امداد کریں۔ بیماروں کے پاس جا کر انکی تیمارداری کریں۔ زخمیوں کو دیکھ کر ان کی مرہم پٹی کریں۔ گمراہوں کو صحیح راستہ دکھائیں۔ بوڑھوں اور بچوں کو سڑک پار کرائیں۔ اندھوں اور اپاہجوں کی مدد کریں۔ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھیں۔ بیواووں کی امداد کریں۔کمزور کو جابر سے بچائیں۔سڑک حادثے میں زخمی کو اسپتال پہنچائیں ۔درحقیقت انسان ،اس عظیم عمل یعنی خدمت خلق سے فرشتے پر بھی سبقت لے جاسکتا ہے بشرطیکہ ہم قربانی اور زحمت کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔
[email protected] ماندوجن شوپیان شمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔