ایک مشہور مقولہ ہے کہ ـــــ’’عبادت سے صرف جنت ملتی ہے مگر خدمت سے خدا ملتا ہے‘‘۔کہتے ہیں کہ خدمت میںعظمت پنہاںہے ۔جب تک دل میں جذبہ ٔ ایثاراور خدمت ِخلق نہ بسا ہو،کوئی عبادت قابل قبول نہیں ہو سکتی۔خدمت خلق کا جذبہ دل سے جڑا ہو تا ہے۔ یہ جذبہ اسی دل میں اُگتا اور اسی جگر میںبرگ وبار لاتا ہے جو دل وجگر صاف و شفاف ہوــ،خدا کے خوف سے بھرا ہو ،انسانیت کے درد سے سرشار ہو ۔لوگوں کی خدمت کرنے کے مختلف طریقے اور سلیقے ہوتے ہیں ۔ہر فرد اپنی ایک سوچ اور اپنا ایک اندازِ فکر رکھتا ہے ،اور اسی کے مطابق وہ خدمتِ خلق کا کا م بھی انجا م دے سکتا ہے۔یوں تو خدمتِ خلق کا انمول جذبہ بھی اللہ کی ہی دین ہوتا ہے ۔کتنے ہی لوگ ہیںجو اپنی پوری زندگی کو خدمت ِخلق کے لئے وقف کرتے ہیں ۔
اسلام کی رُوسے اللہ تعالیٰ کے بندوںکی بے لوث خدمت کرنے والا خدمت گار ہی نہیں بلکہ عبادت گزار بھی کہلاتا ہے ۔ لوگوں کی خدمت کرنے کے مختلف اور متنوع طریقے ہو سکتے ہیں ۔کوئی انسان روپے پیسے سے محتاج لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے،کوئی کسی مظلوم کو ظلم سے نجا ت دلاتا ہے۔گویا خدمت خلق دنیا کا ہر وہ نیک کام ہے جس سے انسانیت کا کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ ہو۔جب ہمارے نبیؐکو اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت پر مبعوث کیا تو آپﷺکولوگوں کو صحیح راستہ دکھانے کی ذمہ داری سونپ دی ۔ یہ آپؐ کی خدمت کا خاص میدان تھا۔ آپ ؐنے اللہ تعالیٰ کا پیغام نامساعد حالات اور حوصلہ آزما فضا کے باوجود لوگوں تک من وعن پہنچایا اور ان کو دوذخ سے بچنے کے طورطریقے واضح فرمائے ۔اس طرح آپؐنے تاریخ انسانی میں لوگوں کی بلا معاوضہ خدمت کرنے میںایک اہم ترین ، کامل ترین اور نمایاں ترین کردار ادا کر کے تمام زمانوں پر اپنا احسان کیا۔
جہاں تک ہماری ریاست جموں و کشمیر کا تعلق ہے۔یہ ریاست ہمیشہ محکومی ،مجبوری اور مظلومیت کا شکار بنی رہی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ اس ریاست کے نہتے عوام کو وقت وقت پر جبر و قہر،ظلم و زیاد تیوں اور بر بریت کا شکار بنایا جاتا رہا ہے۔ یہاں نامساعد حالات کے چکر میں کتنے بچے یتیم ہوتے رہے،کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں ،کتنے والدین کو اولاد سے ہاتھ دھونا پڑا،کتنے خاندان خالی ہوگئے۔اس نا گفتہ بہ صورت ِحال میں قدرت نے نہ جانے کتنے اہل ِدل اور اہل نظر لوگوں کو جِلّا بخشی جن کے دلوں میں خدمتِ خلق کا جذبہ روشن چراغ بن کر پیوست ہوا ۔ان بے سہارااور بے بس لوگوں کا جن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا ،یہ لوگ سہارا اور آسرا بن گئے۔انہوں نے اس رضاکارانہ عظیم کام کو سر انجام دینے کا بیڑا اُٹھایا، خاص کر یتیموں اور بے سہارا بچوں کی خدمت گزاری کا فریضہ انجام دیا ، اُن کی نگہداشت ،پرورش اور تعلیم کا عَلم اٹھا یہ کر یہ فلاحی کارواں آگے بڑھا۔میرے خیال میں تمام تر خدمات سے بڑھ کر یہ سماجی خدمت بڑی عظیم الشان ہے۔ کشمیر قوم مہمان نوازی اور خدمت خلق میں ہر وقت آگے رہے ہیں۔ یہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے جاتے ہیں اور یہاں کے سب لوگ اپنے ان مہمانوں کی ہر ممکن خدمت انجام دیتے ہیں ، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ اس کے علاوہ یہاں مقامی آبادی کے لئے سماجی خدمات اور رفاہی امور کا میدان بھی کافی شاداب ہے۔ یتیم خانے ، خیراتی ادارے ، غیر سرکاری انجمنیں، محلہ کمیٹیاںا ور عام لوگ اپنی اپنی سطح پر محتاج امداد لوگوں کی دل جوئی میں پیچھے نہیں رہتے۔اسی قافلہ ٔ خیر میں جموں و کشمیر یتیم فاونڈیشن بھی شامل ہے جویتامیٰ اور غرباء کی خدمت اپنے وسائل کے حدو دمیں ہر ممکن انداز سے کرتی چلی ہے ۔یتیم فاؤنڈیشن کی فی سبیل اللہ خدمات کا ذکر کئے بغیر خدمت خلق کے حوالے سے کشمیر کی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔اس ادارے کی بدولت نہ جانے کتنے یتیم بچوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور اسی توسط سے ڈاکٹر،انجینیر،اساتذہ بن کر دنیا کے سامنے ابھر کر بہ حیثیت کار کشا خادم بن کر آئے۔ اس رفاہی ادارے کی بدولت بہت سارے بے سہاروںکے خواب شرمندہ تعبیر ہو کر رہے ۔اس ادارے نے ان یتیم لڑکیوں کے خوابوں کو بھی پورا کیا جو ہاتھوں میں مہندی لگانے کے خواب تو دیکھتی تھیں لیکن مفلسی اور ناداری کی وجہ سے یہ خواب پورے ہی نہیں ہو پاتے تھے ۔خدمت خلق کی اس سے بڑھ کرعظیم مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟کوئی انسان دنیا میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو، اگر وہ انسان اور انسانیت کی قدر نہ کرے تو اس کی زندگی رائیگاں ہے۔
آج کے دور میں ہمیں جہاں سماجی فلاح کے دلدادے اور خدائی خدمت گار ملتے ہیں جو دین دکھیوں اور بے آسروں کی بے لوث خدمت کر تے ہیں ، وہاں وہ بیمار ذہن لوگ بھی قدم قدم نظر آتے ہیں جو ہر دوسرے انسان کو اپنی خودغرضی کے لئے پھاڑ کھانے کو آتے ہیں ۔یہ مخصوص ذہنیت کے حامل لوگ کسی کی بھلائی نہیں چاہتے ، خیر کے کام کرنے کی بجائے جھوٹ بولنا یہ لوگ اپنا ہنر سمجھتے ہیں، ان کے یہاںبڑوں کا ادب اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت جیسی چیز کا نام و نشان نہیں ملتا ، گویا یہ نفسا نفسی کے عالم میں جی رہے ہیں۔ نیزقتل و غارت گری کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں ، لڑنے مارنے کی منفی سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے،رشتے بھی اپنی مٹھاس کھو رہے ہیں،سادگی بھی ختم ہو چکی ہے،فضول خرچی اور دکھاوے کے لئے روپے پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ان تمام گندگیوں سے نکلنے کا جب کوئی راستہ نہ سوجھے تولوگ ضرور پریشاں دماغی اور مایوسی کے ر وگی بنتے ہیں ۔ ہمارے لئے ان تمام امرض سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ اپنے دین کی اخلاقی تعلیمات سے آشنا ہونے کی اشد ضرورت محسوس ہی نہ کریں بلکہ ان انسان دوست تعلیمات پر عمل بھی کریں ۔ ہمیں چاہیے کہ سماج کی اخلاقی تعمیر نوکر نے کی نیت سے خدمت ِخلق انجام دینے میں نہ صرف خود پیش پیش رہیں بلکہ اس پُر آشوب دور میں یتیم فاؤنڈیشن جیسے رفاہی اداروں کی قدمے،سخنے ، درمے ا مداد کرکے اپنی دنیاو آخرت سنواریں ۔ یہی ایک قابل ِداد اور لائق ِتعریف کام ہے جس کے ذریعے ہم دنیا کا حَسنہ اور آخرت کا حَسنہ پاسکتے ہیں ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
رابطہ:ریسرچ اسکالر سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر۔
ای میل:[email protected]