بلا شبہ عبادت صرف نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کا نام نہیںبلکہ ہر سانس، ہر قدم اور ہر معاملے میں اطاعت ِ الٰہی کا نام ہے اور اطاعت ِ الٰہی میں حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں۔ حقوق العباد میں انسان کے لئے جہاں اپنی ذات کے حقوق ہیں،وہیںاپنے والدین،اپنے اساتذہ ،اپنے رشتے داروں،اپنےہمسایوں ، دوستوں اور اہلِ علم کے حقوق ہیں، یہاں تک کہ جانوروں تک کے بھی حقوق ہیں اور ان ہی حقوق کی کماحقہ ادائیگی پر معاشرے کی صحت اور حسن کا دارومدار ہے۔ حقوق ا ﷲ کے مقابلے میں حقوق العباد کی زیادہ اہمیت ہے، کیونکہ مخلوق ا ﷲ تعالیٰ کی عیال ہے۔اس لئےمخلوقِ خدا کی خدمت کرنا، ان کے کام آنا، ان کے مصائب و آلام کو دور کرنا، ان کے دُکھ درد کو بانٹنا اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کرنا اور شفقت سے پیش آناہی تو انسانیت کی معراج ہے۔چنانچہ دین ِ اسلام احترام انسانیت کا علم بردار ہے،جس میں جہاں عبادات کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، وہیں معاملات اور اخلاقیات بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔گویااسلامی فلسفۂ حیات کے مطابق حقوق العباد کو حقوق اللہ پر دُہری اہمیت حاصل ہے۔خدمت خلق اور رفاہی کام ہمارے دین کی نگاہ میں عظیم نیکی ہیں ، کسی بھی چیز کو نظر انداز کرکے خود کو اپنی ذمہ داری سے دور کیا جاسکتا ہے لیکن خدمت ِخلق ایک ایسا فریضہ ہے ،جسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔خدمتِ خلق کا درجہ اللہ تعالیٰ نے بلند رکھا ہے اور ہمیشہ ہر جگہ اِس کے بارے میں یہی اِرشاد آیا ہے کہ دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کرو اور اُن کا خیال رکھو، جتنا تمہارے بس میں ہو سکتا ہے۔لیکن فی زمانہ ہمارے معاشرے میں اسلام کا یہ پہلو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ظاہر ہے کہ بندوں کے حقوق میں ہی خدمت خلق کو تصور کرنا عقل مندی ہےاورخدمتِ خلق اور رفاہ عامہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی۔ چنانچہ اسلام کی زریں تعلیمات سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کی عزت اور اس کی جان و مال کا تحفظ اس کا دینی فریضہ ہے، اُس کے دکھ درد میں شریک ہونا اس کے لیے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔کسی بھی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا بہترین آخرت کا ذریعہ ہے، کسی دُکھی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اﷲ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے،کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا بڑا سبب ہے اورکسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے۔بے شک اسلام نے مسلمانوں کے لیے ایثار، اخوت، اتحاد واتفاق اور خیر خواہی کو اپنے نظام میں ایک روشن مقام دیا ہےاور اس پر کار بند ہونے کو نماز اور روزے سے بہتر قرار دیا ہے۔ نبی پاک ؐ کافرمان ہے کہ مسلمانوں کے مابین نا اتفاقی کو دور کرنا نماز اور روزے سے بہتر ہے۔ جھوٹ جیسے گناہ کو مسلمانوں میں صلح اور بھائی چارہ کے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ گویااسلام کی تہذیبی خدمات میں ایک بہت نمایاں خدمت انسانیت کی فلاح وبہبود کے کام کو مذہبی عبادت کا درجہ دینا اور خدمت خلق کی ذمہ داری کو روحانی بلندی کا ذریعہ قرار دینا بھی ہے۔الغرض خدمت خلق اور رفاہِ عامہ کا تصور درحقیقت حقوق العباد اور احترام انسانیت کے اسلامی فلسفے کی اساس ہے،جس سے اسلام میں اس کی عظمت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ انسان کے ہر عضو اور ہر جوڑ میں اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت پیدا کی ہے،ان میں ہر عضو سے رضائے الٰہی اور حکم پروردگار کے مطابق کام لینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔خصوصاً غیر یقینی ،بدعنوانی، گراں بازاری اور نفسا نفسی کے اس دور کے اُن حالات میںجہاں ہمارا معاشرہ ہر سطح پر اور ہر معاملے میں زوال پذیر ہورہا ہےاور تیزی کے ساتھ خستگی ، پستگی و پشیمانی کی طرف گامزن ہے۔ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم فکر و تدبر کے ساتھ اپنے آپ کا بھرپور جائزہ لیں اور غور کریں کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ جسم کے ہر عضو ،جس میں ہاتھ، پاؤں، آنکھیں اور دل ودماغ وغیرہ سب شامل ہیں،کا حقیقی معنوں میںرضائے الٰہی اور حکمِ پروردگار کے مطابق صاف و پاک طریقے سے کام میں لاتے ہیں ،جس سے ان نعمتوںکا حق ادا ہوسکے۔کیوں کہ ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا نیکی کاکام ہے، اس لئےہمیں ہر ایک عضو کی صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اللہ کی مرضی کے مطابق کام میں لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ خدمت ِخلق اور رفاہی عامہ کی حق ادائیگی کے تحت ہمارا معاشرہ تمام گندگیوں سے صاف و پاک ہوجائے۔