خالد بشیر تلگامی
صبح کی دھند ابھی گلیوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ سرد ہوا سے ہاتھ پاؤں شل ہورہے تھے۔
اس نے آہستہ سے چائے کا برتن چولھے پر رکھا۔ پانی کے جوش سے اُٹھتی بھاپ نے لمحہ بھر کو اس کے چہرے کو چھوٗااور پھرخلاء میںتحلیل ہوگئی۔بالکل ویسے ہی جیسے زندگی کے سکون کے لمحے کچھ دیر کے مہمان بن گئے ہوں۔
چائے بناتے ہوئے اس کے ذہن میں دفتر کا خیال آیا ۔ پچھلے تین مہینوں سے پروموشن کا وعدہ بس فائلوں میں قید تھا۔ ہر روز نئے کاغذ، نئے کام مگر تسلیم وہی پرانی خاموشی۔تنخواہ کم ، ذمہ داریاں زیادہ اور اوپر سے بچوں کے اسکول کے اخراجات!
اچانک فون کی گھنٹی نے خاموشی توڑ دی۔ دوسری طرف بچوں کی آوازیں تھیں۔’’ابّو پروگریس کارڈ لانا ہے۔‘‘
چائے کا کپ میز پر پڑا رہ گیا اور وہ خود ایک نئی دوڑ میں نکل پڑا۔
اسکول کی راہداریوں میں بچوں کے قہقہے گونج رہتے تھے۔
وہ پروگریس کارڈ ہاتھ میں لئے بظاہر مطمئن تھا ، لیکن اندر ایک عجیب ساخالی پن پھیل چکا تھا۔ خوشی توتھی مگر اس کے حصے میںصرف تھکن آئی تھی۔
گھر لوٹا تو وقت ا س کا ساتھ چھوڑ چکا تھا۔ دفترکے لئے دیر ہوگئی تھی۔اس نے فون اٹھایا اورہاف ڈے لیو کی اطلاع دی۔ دل میں سوچا، فرض نبھانے میں دیر ہوجائے تو کیا نیت بھی مشکوک ہوجاتی ہے؟
دفتر پہنچ کر فائلوں کے درمیان بیٹھا وہ خود کو کسی پرانی کہانی کا بے نام کردار محسوس کررہا تھا۔کام کرتے کرتے جب ہاتھ تھکنے لگے تو دل نے سرگوشی کی۔’’یہ سب بچوں کے لئے ہیں۔۔۔۔ان ہی کے لئے تو ہر دن جیتا ہوں۔‘‘
شام کے سایئے پھیلنے لگے تھے۔وہ دفتر سے نکلا تو سرد ہوائیں جیسے اس کے اندر کی خاموشی کو چیر رہی تھیں۔ بائیک پر بیٹھے بیٹھے اسے لگا جیسے زندگی اپنی رفتار کھو چکی ہو۔ راستے کے درخت، بادل، گردوغبار سب اس کے اندر کی اکتاہٹ کا عکس بن گئے تھے۔
گھر پہنچا تودروازہ خود کھولا ۔بیوی کچن میں تھی۔ اس کے چہرے پر روز کا وہی تناؤ۔
’’چائے بناؤں؟‘‘اس نے آہستہ سے کہا۔
وہ مسکرایا۔’’ہاں، بس ایک کپ۔۔۔۔تھکن اتارنی ہے۔‘‘
چائے آئی مگرساتھ میں طعنے بھی۔’’گھر میں کچھ دیکھنے کی فرصت نہیں؟۔۔۔۔بچوں کی چیزیں میں اکیلے سنبھالوں؟‘‘
وہ خاموش رہا۔دل چاہا کہ کہے۔’’میں بھی سارا دن کسی میدانِ جنگ میں رہتا ہوں۔‘‘مگر الفاظ گلے میں پھنس کر رہ گئے۔
چائے کی بھاپ سے آنکھیں دھندلاگئیں۔ بھاپ اور آنسوایک لمحے کو ایک دوسرے سے گلے مل گئے۔
بیوی نے آہستہ سے کہا۔’’تمہیں پتا ہے ۔۔۔۔کبھی کبھی لگتا ہے تم اب پہلے والے نہیں رہے۔‘‘
’’شاید اب پہلے والا رہ بھی نہیں سکتا۔‘‘ اس نے تھکے لہجے میں کہا۔’’زندگی نے تھکا دیا ہے۔۔۔۔تنہا کردیا ہے۔‘‘
ایک لمحے کو بیوی بھی خاموش ہوگئی۔ مگر پھر بات بدل گئی۔
’’گھر میں کیک ہے۔۔۔۔بسکٹ ہے۔۔۔۔مگر تمہیں کبھی خوشی نہیں نظر آتی۔‘‘
وہ صرف مسکرایا۔ دل جانتا تھا کہ یہ بحث کسی منزل تک نہیں پہنچے گی۔
رات کے کھانے پر پھر وہی تکرار۔سبزی پر بحث، دالوں پر شکایت اور آخرکار الزام تراشی۔’’تمہیںبس اپنے آپ کی فکر ہے۔‘‘
وہ آہستہ سے بولا۔ ’’اگر ایسا ہوتا تو میں خود کو کب کا آزاد کر چکا ہوتا۔‘‘
بیوی ایک پل کو رکی، پھر چپ رہی۔ کمرے میں عجیب سی خاموشی پھیل گئی۔وہی خاموشی جس کے بیچ کبھی کبھی الفاظ دم توڑ دیتے ہیں۔
کھانے کے بعدوہ چھت پر چلا گیا۔ آسمان صاف تھا، مگر دل دھندلا۔’’یا اللہ! میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ میرے بچے روشنی میں زندگی گزاریں۔۔۔۔میری خاموشی ان کے مستقبل کی دیوارنہ بنے۔‘‘
نیچے سے بچوں کی ہنسی سنائی دی۔ وہ مسکرایا۔دل نے کہا۔’’ شاید ابھی سب کچھ ختم نہیں ہواہے۔‘‘
اس نے میز پر رکھا پروگریس کارڈ اٹھایا۔تھکن کے باجود آنکھوں میں چمک لوٹ آئی۔’’یہ میری جیت ہے!‘‘ وہ خود سے بولا۔’’باقی سب تو بس شور ہیں۔‘‘
ہوا کے جھونکے نے چائے کی بھاپ کوپھر کچن کی کھڑکی پر لہراتے دیکھا۔اور اسے لگا جیسے اس کی تھکن بچوں کے روشن مستقبل میں تحلیل ہوگئی ہو ۔
���
تلگام، پٹن، بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛9797711122