رئیس یاسین
اسلام میں عیدیں دو ہی ہیں، عید الفطر اور عیدالاضحی۔ عید الاضحی کی نمایاں ترین اور امتیازی شان قربانی ہے۔ اس قربانی کا فلسفہ کیا ہے اور یہ کس چیز کی علامت ہے؟ یہ وہ بات ہے کہ خود صحابہ کرام نے نبی اکرمؐ سے دریافت کی تھی۔ قرآن مجید کا عمومی انداز یہی ہے کہ وہ جو حکم دیتا ہے تو اس کی علت و حکمت بھی بیان کردیتا ہے۔ جیسے نماز کے بارے میں حکمت یوں بیان کی گئی ہے کہ:’’نماز قائم کرو میری یاد کے لیے‘‘،روزہ رکھنے کا حکم دیا تو ساتھ ہی اس کی حکمت بھی بتا دی کہ’’ تاکہ تم میں تقوی پیدا ہو جائے‘‘۔واضح کردیا گیا کہ ہر ایک عبادت کا ایک معین مقصد ہے۔ قربانی کی حکمت معلوم کرنے کے لیے صحابہ کرام نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ:اے اللہ کے رسولؐ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ تو نبی اکرمؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ‘‘۔ یہ اس عظیم الشان واقعہ کی یاد گار ہے جس میں ایک سو سالہ بوڑھے باپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر، جو نوجوانی کے دور میں قدم رکھ رہا ہے، چھری پھیر دی تھی۔ یہ وہ واقعہ ہے جو اس لحاظ سے نوع انسانی کی تاریخ کی عظیم علامت بن گیا ہے اور اس طرح یہ قربانی ہمیشہ کے لیے شعائر دین میں شامل ہو گئی ہے۔ یہ اس قربانی کی روح کو بیدار اور برقرار رکھنے کا بھی ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ایک بندہ مومن سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہو۔ یہ حضرت ابراہیم ؑ کی اس قربانی کی یاد ہے جو ہر سال منائی جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی قربانیوں سے بھری پڑی ہیں، قدم قدم پر آزمائشیں ،بقول اقبال۔ قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب! اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی!
گویا کہ حیات ابراہیمؑ امتحان و آزمائش کی کامل مثال ہے۔ پہلا امتحان فکر و نظر کا انہوں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں ہر نوع کے شرک کے کھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ شرک کی جتنی اقسام ہوسکتی ہیں وہ سب کی سب موجود تھیں سیاسی شرک، مذہبی شرک۔ حضرت ابراہیمؑ اپنی فطرت و عقل سلیم کی رہنمائی میں نظری، فکری اور عقلی سفر کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کے دل کی گہرائیوں سے ابھر کر یہ نعرہ توحید ان کی زبان پر آتا ہے:’’میں تمہارے تمام معبودوں کا انکار کرتا ہوں اور میں نے یک سو ہو کر اپنا رخ اس ذات کر طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ‘‘(الانعام)’’ اور خدا کی قسم میں تہماری عدم موجودگی میں تمہارے ان بتوں کے ساتھ کوئی معاملہ کرکے رہوں گا ‘‘(ان کی خبر لے کے رہوں گا) (الانبیاء)۔تو یہ ان کی فطرت وعقل سلیم کی آزمائش کا پہلا مرحلہ ہے، پہلا امتحان ہے، جس میں شاندار طریقے پر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اب دوسرا امتحان عمل کا شروع ہوا۔ سب سے پہلی کشمکش تو اپنے والد سے ہوتی ہے۔ ’’ کہا :آپ پر سلامتی ہو، میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو معاف کر دے۔ یقیناً میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے ‘‘(القرآن) ۔وہ اللہ کا بندہ گھر سے نکل رہا ہے باپ کو سلام کرکے۔ ارادے، عزم اور سیرت و کردار کی پختگی کا یہ امتحان ہے جس میں حضرت ابراہیمؑ پورے اترتے ہیں۔ اب آیا معاملہ عوام کا وہ عوام جو فی زمانہ خدائی کے مدعی ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے کس قدر عظیم کام کیا کہ ان کے سب سے بڑے صنم خانے میں جاکر ان کے تمام بتوں کو سب سے بڑے بت کو چھوڑ کر توڑ پھوڑ ڈالا اور بایں طور پر ان کے باطل عقائد پر ضرب کاری لگادی۔ حضرت ابراہیمؑ کی حجت کی اس عملی تدبیر سے ان پر حقیقت تو منکشف ہوگئی لیکن وہ اس کو قبول نہ کرسکے۔ اس امتحان میں بھی حضرت ابراہیم ؑ سر خرد ہوتے ہیں۔عوام کے ساتھ اس مقابلے میں کامیاب ہو جانے کے بعد اب حکومت و اقتدار وقت سے مقابلہ کی نوبت آتی اور اس سے محاجہ،مباحثہ اور تصادم ہوتا ہے۔ بادشاہ کے دربار میں علی الاعلان کہتا ہے کہ ’’میرا رب وہ ہے کہ جِلاتا اور مارتا ہے‘‘ اس بادشاہ نے بحث میں الجھنے کی خاطر کہا کہ ’’ میں جِلاتا اور مارتا ہوں‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ میرا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے (اگر تجھ میں خدائی کا کچھ اختیار ہے تو) تو اسے مغرب سے نکال کر دکھاو ‘‘اس حجت قاطعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ:یہ سن کر وہ منکر حق ششدر ہو کر رہ گیا۔اس امتحان میں بھی حضرت ابراہیم ؑ کامیاب ہو گئے۔
اب آیا ایک اور بڑا امتحان۔ یہ امتحان دنیا میں اکثر لوگوں کو پیش آتا رہتا ہے۔ اگر اسی مقصد پر ڈٹے رہو گے تو موت تمہارا مقدر ہو گی۔ اس کے جواب میں حضرت ابراہیمؑ السلام کا فیصلہ اس کے سوا کیا ہوتا کہ اپنے موقف سے سر موہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ان کا موقف تو یہی رہا کہ :کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں۔(سورۃ النعام)۔آگ حضرت ابراہیم ؑ کے حق میں گل وگلزار بن گئی۔ وہ اللہ کا بندہ اس امتحان میں بھی کامیاب ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو معجزانہ طریقے پر بچالیا۔
پانچواں امتحان وطن کو خیر باد کہنا اور صرف اللہ کے بھروسے پر وہاں سے نکل جانا۔ اس ہجرت میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ ؑاور ان کے بھتیجے حضرت لوط ؑ تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کے بعد کی پوری زندگی مسافرت و مہاجرت کی داستان ہے۔ اب امتحان وآزمائش کا نقطۂ عروج ہے۔ گویا قدرت مسکرا رہی ہے کہ ایک سو سالہ بوڑھے انسان کا امتحان، بڑا کڑا امتحان ابھی باقی ہے۔ یہ بڑے بڑے امتحانوں سے گزر کر آیا ہے، لیکن ابھی آخری تیر ایک بھاری اور مشکل امتحان کی صورت میں ہمارے ترکش میں موجود ہے۔ اس وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر تیرہ سال تھی تو حضرت ابراہیم ؑ اس سے کہتےہیں:’’اے میرے پیارے بچے! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب بیٹے کی حلیمی کا اظہار ہورہا ہے:’’اس بیٹے نے کہا! اباجان! کر گزریئے جو حکم آپ کو مل رہا ہے، آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔
ان ہی امتحانات سے گزرنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ اس مرتبے کو پہنچے کہ ان کو امام الناس کے مقام پر فائز کیا گیا۔ ’’اور ہم نے بعد کی نسلوں کے لیے اس قربانی کو بطور یادگار چھوڑ دیا۔ سلامتی ہو ابراہیم پر جو اس کڑے امتحان میں پورا اترا اور اسی طرح ہم محسنوں کی قدر دانی کرتے ہیں اور ان کو جزاء سے نوازتے ہیں‘‘ (القرآن)
ہمارے لئے لمحہ فکر یہ ہے کہ ہم سوچیں، غور کریں اور اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ کیا واقعتاً ہم اللہ کی راہ میں اپنے جزبات و احساسات کی قربانی دے سکتے ہیں؟ کیا واقعتاً ہم اپنی محبوب ترین اشیاء اللہ کی راہ میں قربان کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے ذاتی مفادات کو اللہ اور اس کے دین کے لیے قربان کر سکتے ہیں؟ اپنے علائق دنیوی اپنے رشتے اور اپنی محبتیں اللہ کے دین کی خاطر قربان کر سکتے ہیں؟ اگر ہم یہ سب کرسکتے ہیں تو عیدالاضحی کے موقع پر یہ قربانی بھی نور علیٰ نور۔ اور اگر ہم اللہ کے دین کے لیے کوئی ایثار کرنے کے لیے تیار نہیں تو جانوروں کی یہ قربانی ایک خول اور ڈھانچہ ہے، جس میں کوئی روح نہیں۔ بقول علامہ اقبالؔ
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
[email protected]