پروفیسرعطاء الرحمٰن
(گذشتہ سے پیوستہ)
حیاتیاتی پیوند کاری (Biological Implant) کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ توانائی کے قابل بھروسہ ماخذ کا ہے جو پیوند کے کام کو جاری رکھنے میں مدد کرے۔ اس کے لیے اگر بیٹری کا استعمال کیا جائے گا تو مریض کو بیٹری لگانے اور بیٹری کی مدت ختم ہونے کے بعد تبدیل کرنے کے لیے آپریشن کے مرحلے سے گذرنا پڑے گا۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے محققین Piezoelectircal آلے کو استعمال کرتے ہوئے ایسا میکنزم تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے ذریعے جسم کی اپنی میکانی حرکت سے توانائی حاصل کی جاسکے ۔Piezoelectricity وہ چارج ہے جو کہ ایک خاص مواد پر میکانی دباؤ کے نتیجے میں جمع ہوتا ہے۔
یہ چارج کئی کارآمد ڈیوائس کو طاقت فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔یونیورسٹی آ ف وسکوسن میڈی سن کے محققین کے میٹریل سائنس اور انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر Zudong Wang کی سربراہی میں بجلی پیدا کرنے کا ایک انوکھا طریقہ دریافت کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں80Piezoelectric خصوصیات کا حامل انتہائی باریک مواد استعمال کیا گیاہے ،جس کو انسانی ناک کے اندر لگادیا جاتا ہے او رپھر سانس کے عمل سے پیدا ہونے والے ہوا کے بہاؤکی میکانی توانائی کو مائیکرو واٹس میں برقی توانائی میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ توانائی سنسرز کو طاقت فراہم کرتی ہے ۔ تیار کی جانے والی ڈیوائس میں پلاسٹک کی مائیکرو بیلٹ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ 80Piezoelectrical مواد سے بنی ہے اور یہ سانس لینے کے عمل کی وجہ سے پیدا ہونے والے ارتعاش سے برقی توانائی پیدا کرتی ہے۔
مصنوعی حیاتیات سنسنی خیز نئی سرحدیں : کیا زندگی تجربہ گاہ میں تخلیق کی جا سکتی ہے ؟کیا ایک نئے حیاتی جسم میں انجینئرنگ کے ذریعے ایسی خصوصیات پیدا کی جا سکتی ہیں جو قدرتی حیاتی جسم میں موجود نہیں تھیں ؟ کیا موجودہ حیاتیاتی اجسام میں اس طرح تالیف کے ذریعے ترمیم کی جا سکتی ہے کہ ان کے اندر ایسی خصوصیات پیدا ہوجائیں جو قدرت میں موجود نہیں تھیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو Synthetic Biologyیا تالیفی حیاتیات کے میدان میں بہت زیادہ اٹھائے جا رہے ہیں اور ان پر غور کیا جا رہا ہے۔
اس تیزی سے وسعت پذیر موضوع کے پہلے ہی بہت سے اطلاقات و استعمالات تلاش کرلیے گئے ہیں ۔ پودوں کی جینیاتی ساخت میں ترمیم کرکے ادویات کے میدان میں موجودہ دوائیں مزید موثر انداز میں تیار کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ملیریا کے خلاف کام کرنے والی ایک دوا artemisine کو sweet wormwood کے پودے سے بنایا جاتا ہے جو کہ جنوب مشرقی ایشیاء کے ساحلی جنگلات میں پائے جانے والے مینگرووز ہیں۔ اس دوا کی طلب بہت زیادہ ہے لیکن اس پودے کی پیداوار بہت محدود ہوتی ہے ۔تاہم، سائنس داں تین مختلف حیاتیاتی اجسام سے حاصل کیے گئے بیکٹیریا جینE.coli بیکٹیریا میں داخل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
جو کہ ایک پیش رو مواد بناتا ہے، جس کو بعد میں artemisine میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ نیز یہ پودے براہ راست حاصل کیے گئے مواد کے مقابلے میں کہیں سستے ثابت ہو تے ہیں، مختلف نا میاتی اجسام کے مرض کے خلاف دواؤں کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس میں ہائیڈروجن کو بطور توانائی کے ماخذ تیار کیا جائے گا جو کہ خراب زمین سے بھاری دھاتوں اور دوسرے آلودگی پیدا کرنے والے اجزاء کو نکال دے گا یا پھر حیاتیاتی مائیکرو سب میرین تیار کی جائے گی جو کہ خون کی نالیوں میں تیرتی ہوئی جائے گی اور ٹیو مر کی جگہ پر واقع کینسر کے خلیات کو ختم کردے گی۔
طویل عمر کے جنین کی دریافت : ’’ہمیشہ جوان رہنے کا راز‘‘ صدیوں سے کہانیوں اور انسانوں کا موضوع رہا ہے۔ اب حیاتیاتی سائنس اس کو حقیقت میں تبدیل کرنے جارہی ہے۔ ادویاتی کیمیاء اور جنیومکس میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے ہم اس میکنزم کو سمجھنے کے قابل ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے حیاتیاتی گھڑی ہمارے اندر ٹک ٹک کررہی ہے۔ یہ فہم بیکٹیریا، مکڑیوں، کیڑے مکوڑوں، حشرات الارض، چوہوں اور دوسرے جانوروں پر تحقیق کے بعد حاصل ہوا ہے۔
اس کی وجہ وہ عمل ہے، جس کے ذریعے خلیات زندہ رہتے ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے Walk Institute of Biological Studies کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ پھلوں کی مکھی کی آنتوں میں پائے جانے والے خلیات کے ایک جین میں ترمیم کرکے پھلوں کی مکھی کی آنت کی زندگی میں اضافہ کیا جاسکتاہے ۔ ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس طریقے سے پھلوں کی مکھی کی اوسط عمر میں 50 فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔
ایسی جینیاتی ترمیم جو کہ صرف ایک عضو کو جوان اور صحت مند رکھتی ہے،وہ پورے کیڑے کی زندگی کو بڑھا سکتی ہے ۔یہ جین انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ سوئیڈش سائنس دانوں نے اس سال کے2000 ء کے آغاز میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ کم کھا کر زندگی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ہمارے خلیات میں بعض مائی ٹو کونڈریا ہوتے ہیں جو کہ ہماری خوراک سے شکر اور چکنائی کو لے کر اس کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔
اگر کم کیلوری والی خوراک استعمال کی جائے تو ان Power Plants کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس سے ہماری زندگی کے دورانیے میں اضافہ ہوگا ۔ ان خلوی پاور پلانٹ کی تعداد میں اضافے کا ایک طریقہ جین کومروڑنا ہے، جس کے ذریعے جین کو زیادہ کام کے موڈ میں رکھا جاتا ہے، اس سے زندگی طویل ہوتی ہے۔
مستقبل میں ہونے والی وائرل بیماریوں کے لیے اینٹی وائرل دوائیاں
بعض وائرس مثلاً HIV، سارس امبولا اور H1N1 میں اچانک نمودار ہونے والی تبدیلی سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہےجو کہ اس سے قبل انسانی تاریخ میں سامنے نہیں آیا تھا جیساکہ ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سال یا آگے آنے والے سالوں میں کون سا وائرس نشوونما پا سکتا ہے۔
اس قسم کے وائرس سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ DARPA(پینٹاگون کی تحقیقی شاخ) میں حیاتیاتی دفاع کے سربراہ Micheal Godblatt نے اینٹی وائرل دواؤں کی نئی قسم پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے بارے میں اُمید کی جارہی ہے کہ یہ ویکسین نہ صرف اس وقت معلوم شدہ وائرس کے لیے موثر ہو گی بلکہ مستقبل میں آنے والے وائرس کے خلاف بھی موثر ثابت ہو گی۔
تاہم، Gathersburgh میری لینڈ کی ایک بایوٹیک کمپنی Functional Geneticsمیں بھیجے جانے کے بعد وہاں کی ٹیم نے بعض دوائیں تیار کی ہیں جومطبی آزمائش کے مرحلے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان کے کام کا انحصار اس حقیقت پر ہے کہ اگر میزبان کے بغیروائرس بے بس ہوتے ہیں۔ اس طریقہ کار میں میزبان خلیات کو وائرس کے ذریعے بڑھنے والے خلیات کی نقل تیار کر کے دھوکا دیا جاتا ہے لیکن اگر کسی نے میزبان میں موجود ایسی پروٹین کو شناخت کرلیا اور روک لیا جو کہ تقسیم کے عمل کے لیے ضروری ہے تو کیا ہو گا؟ اس سے نہ صرف صحت مند خلیات کی ہلاکت رک جائے بلکہ اس سے وائرس کے multiplication کا عمل بھی رک جائے گا۔
یہ ایک خاص پروٹین (TSG101) کو ہدف بناتا ہے ،جس کی ضرورت وائرس کو میزبان خلیات سے پھوٹ پڑنے کے لیے ہوتی ہے۔ ایک دوا (FGI – 104) بڑی تعداد میں وائرس کے خلاف فعال نظر آئی۔ (ایڈز، ہیپاٹائٹس سی، ای بولا) او ریہ وائرس کے خلاف کام کرنے والی ادویات کی تیاری میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ دوسرے کئی گروہوں نے اس تصور کو دواؤں کی تیاری کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وائرس کا ارتقاء اس طرح ہوجائے کہ وہ اس نئے خطرے پر قابو پا لیں۔(ختم شُد)
���������������