رجسٹرڈ 3لاکھ 82ہزار میں سے 1لاکھ60ہزار کو ماہانہ ایک ہزار کی امداد، چولہے جلے نہ پیٹ کی آگ بجھی
سرینگر //عالم گیر عالمی وبا ء کورونا وائرس کی روکتھام کیلئے ملک بھر کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی 25مارچ سے شروع ہوئے لاک ڈاون سے اب تک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ایک کنسٹرکشن مزدور کو مجموعی طور پر 53دن میں 26,500اور مستری وترکھانوں کا 37,100روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ حکام کی جانب سے صرف رجسٹرڈ کئے گئے 3لاکھ 82ہزار مزدوروں میں سے 1لاکھ 60ہزار لوگوں کو ہی امداد فراہم کی گئی ہے ۔رجسٹرڈ 2لاکھ 22ہزار مزدوروں کے علاوہ غیر رجسٹرڈ 9لاکھ 68ہزار مزدوروں کے حق میں ایک پیسہ بھی ادا نہیں ہو سکا ہے جس کے نتیجے میں ان مزدوروںکے چولہے بجھ چکے ہیں ۔حکام کا کہنا ہے کہ صرف سرکاری امداد ان ہی مزدوروں کو فراہم کی جائے گی جنہوں نے وقت وقت پر اپنے آپ کو بورڈ میں رجسٹر کروایا ہے۔مزدور طبقہ کا مطالبہ ہے کہ جموں وکشمیر کے تمام منظور وغیر منظور شدہ ایسے مزدوروں کے حق میں انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی جائے، جو لاک ڈائون سے بیکار ہوچکے ہیں ۔
معلوم رہے کہ دھیاڑی پر کام کرنے والا ایک مزدور دن میں 500روپے کماتا تھا جبکہ مستری اور ترکھان فی دن اوسطاً700روپے مزدوری پر کام کرتا تھا، لیکن لاک ڈائون کے سبب وہ مکمل طور پر بیکار ہوچکے ہیں۔لاکھوں کی تعداد مزدور گھروں میں محصور ہیں اور جن لوگوں کو امداد ملی، وہ بھی پریشان ہیں کہ ایک ہزار روپے سے کیسے ان کے گھر کا چالہا جلے گا۔لیبر یونین جموں وکشمیر کا کہنا ہے کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے رجسٹرڈ مزدور وںکی کل تعداد ساڑھے 3لاکھ ہے۔ ان ساڑھے 3لاکھ مزدوروں کا اگر 500مزدوری کے حساب سے تناسب نکالا جائے تو انہیں ان 53دنوں میں سے ایک دن کا 650کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے ۔ اس حساب سے اگرمجموعی نقصان کا احاطہ کیا جائے تو 13لاکھ مزدوروں کا پچھلے 53روز کے دوران 34ہزار 450کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔لیبر یونین چیئرمین وکنسٹریکشن ڈیولپمنٹ بورڈ کے ممبر بشیر احمد بشیر نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ سال2017کی مردم شماری کے تحت جموں وکشمیر میں ساڑھے 13لاکھ ،کنسٹرکشن ورکرکام کر رہے ہیں ۔ان مزدوروں میں ترکھان ، مستری وغیرہ بھی شامل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 3لاکھ 82ہزار مزدورکنسٹریکشن ورکر ڈیولپمنٹ بورڈ میں رجسٹرڈ ہوئے ہیں ،تاہم سرکار کی جانب سے صرف 1 لاکھ 32ہزار لیبرس کو ماہانہ 1000روپے دیا گیاہے، جو ناکافی ہے ۔انکا کہنا ہے کہ 2لاکھ 50ہزار مزدور فاقہ کشی کی صورتحال سے دوچار ہیں، جنہیں اب مقامی بیت المال اور مقامی مسجد کمیٹیوں کی طرف سے تھوڑی بہت امداد دی جارہی ہے جبکہ کچھ علاقوں میں چند رضاکار تنظیمیںکام کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے جموں وکشمیر حکام اور مرکزی سرکار کو بھی آگاہ کیا، لیکن کوئی بھی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے ۔
بشیر احمد بشیر نے کہا، مزدوروں کے ا عداد وشمار سرکار کے پاس ہیں اور ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ایسے سبھی افراد کو بھی مالی امداد فراہم کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ دہلی اورتمل ناڈو میں ایسے مزدوروں کو بھی امداد دی گئی ہے جو رجسٹرڈ نہیں تھے ۔کشمیر عظمیٰ نے اس تعلق سے جب جموں وکشمیر بلڈنگ کنسٹریکشن ویلفیئر بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیکریٹری محمد مظفر پیر سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا’’ ہم نے ابھی تک قریب 1لاکھ 60ہزار ورکررس کو 2قسطوں میں ایک ایک ہزار روپے کی امداد فراہم کی ہے اور جن لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے انہیں فوری طور پر رجسٹریشن کرانی چاہئے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ جن ورکروں کو 1ہزار روپے کی ماہانہ امداد ملی ہے وہ ایسے ورکر ہیں جنہوں نے پہلے ہی اپنی رجسٹریشن کرائی ہے اور جو ہر سال فیس کے ساتھ اپنے آپ کو بورڈ میں رینیو بھی کراتے ہیں اور جنہوں نے 90دن تک کام کیا ہو اہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جتنے بھی کنسٹرکشن ورکر ہیں اور رجسٹرڈ ہیں انہیں سرکاری امداد ملے گی او ر جنہوں نے اپنے آپ کو رجسٹرڈ نہیں کرایا ہے، انہیں فوری طور پر اپنی رجسٹریشن کرانی چاہئے۔