دنیا بھر کے مزدوروںو مظلوموں پر بات کرتے ہوئے جرمنی کے مشہور فلسفی و مفکر کارل مارکس نے کہا تھا کہ آج تک تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ رہی ہے۔زیادہ گہرائی میں نہ جاتے ہوئے اگر ہم دنیا ، بالخصوص جنوبی ایشا کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اس وقت کے حکمرانوں نے اس طبقاتی کشمکش کو رشوت ، دھوکہ دہی اور اقرباء پروری سے پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا۔پاکستان اور ہندوستان میں خانوادی جمہوریت نے یہاں کے سماج میں رشوت خوری کو اس سطح پر پہنچایا ہے کہ لگتا ہے کہ اس رشوت کے گرم بازاری کو ختم کرنے میں کئی صدیا ں درکار ہیں۔ہندوستان اور پاکستانی کے بڑے سیاست دانوں اور نمایاں شخصیتوں کا پاناما کیس میں نام آنا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
اگر ہم کشمیر کی طرف آئیں تو ۱۹۴۷ء سے یہاں برابر نام نہاد جمہوریت کے پردے میں رشوت ،اقربا پروری، آپسی تصادم، مفاد پرستی وغیرہ جیسی مکروہات کو پروان چڑھانے میں مختلف حکومتوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ کڑواسچ یہ ہے کہ سنتالیس کے دور ِ پُر آشوب میں وقت کے قدآور لیڈر کو اقتدار بھی رشوت کے طور ہی دیا گیا، اس کے آگے خاندانی سیاست نے یہاں کے مظلوم عوام کو متعدد دشواریوں اور اذیتوں میں مبتلا کردیا اور ان کو ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔یہاں کے مظلوم و مجبور عوام سے تو کشمیر مسئلہ حل کرنے، رشوت خوری کو ختم کرنے، اچھی انتظامیہ فراہم کرنے کے ہر بار وعدے کیے گئے لیکن ادھر الیکشن ختم بھی نہیں ہوا اور ادھر سرکار اپنی پرانی دُھن اور دہلی کا راگ الاپنے میں مست ہوگئی ہے۔ یوں ہر بار یہاں کے مظلوم وغریب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دی گئی اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
جموں و کشمیر کی موجودہ سرکار نے تو پہلے والی حکومتوں کے ریکارڑ بھی توڑ دئے۔ظلم و ناانصافی،رشوت خوری، اوراقرباء پروری میں اس نے نئے نئے ریکارڑ قائم کئے۔ اتنا توسب کو پتہ ہے کہ ۲۰۱۶ء میں عوامی مظاہروں کے دوران میں ہزاروں کی تعداد میں بچے ، بزرگ اور عورتیں اسی سرکار کے دور حکومت میں گولیوں اور پیلٹ کے نشانہ بن گئے اور مسئلہ کشمیر پر کسی بامعنی پیش رفت کے بجائے اس حکومت نے مظلوم عوام کو ہی تشدد کا نشانہ بنایا اور یوں حال ہی میں جی ایس ٹی کو لاگو کرکے اور دفعہ ۳۵ A ؍ کو ختم کرنے کی سازش کشمیر مسلٔہ اور جموں و کشمیر کی بچی کھچی خود مختاری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے برابر ہے لیکن ساری کہانی کاایک تاریک پہلو یہ ہے کہ ترقی، بنیادی ضروریات،بہتر انتظامیہ اور رشوت کے خاتمے کے لیے ووٹ مانگنے والی یہ سرکار اپنے وعدوں پر کھرا اترنے کے بجائے اس نے ان تمام مسائل کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔رشوت ، اقرباء پروری، عوام کو پر یشان رکھنا ، مسائل کی اَن سنی کرنااساتذہ کو مختلف بہانوں سے ہراساں کرنا، ان کی تنخواہیں وقت پر نہ واگذار کرانا اور دوسرے سرکاری ملازمین کو مختلف بہانوں سے پریشان کرناہماری مخلوط حکومت کے وہ کارنامے ہیں جن کی اصلیت سے شاید ہی کوئی ذی فہم و با شعور کشمیری ناواقف ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنوبی ایشا میں حکمراں طبقات نے ہمیشہ جمہوریت کی آڑ میں یہاں کے مظلوم عوام کا استحصال کیا۔یہاں کی حکمرانوں نے عوامی دولت کا صرف ۳۰؍فیصد عوامی مفاد کی خاطر خرچ کیا اور بقیہ ۷۰فیصد انہوں نے بند بانٹ کر کے اپنے بنک کھاتوں اور تجوریوں میں جمع کیا اور اب بھی یہی کچھ شدومد سے کر رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ پاناما گیٹ کی رپورٹ آنے کے بعد رشوت خوری کے الزام میں بڑے بڑے نیتاؤں کو ملوث پایا گیا ہے۔جموں و کشمیر کی سرکاروں نے آج تک مختلف وقتوں میں بدنام زماں سکنڈل کئے ہیں۔بڑے بڑے اداروں میں رشوت خوری کے واقعات منظر عام پرآئے ہیں۔ بوپی کے سابق چیئر مین مشتاق پیر نے ایم بی بی ایس کے امتحانات میں لاکھوں روپیہ رشوت لے کر نااہل امیدواروں کو ـ’’کامیاب‘‘ کیا اور یوں ڈاکٹری جیسے معزز اور نازک پیشے کو داغ دار بنانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور پبلک سروس کمیشن(PSC) جیسے ادارے اور دیگر بھرتی والے اداروں کا اندرونی حال کیا ہے، وہ سب پر عیاں ہے۔ سچ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں رشوت کے اس بازار کو گرم رکھنے میں یہاں کے بیرو کریٹوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے اور اس کالے اور خفیہ مگر سرکاری پشت پناہی والے کاروبار میں حکومتی کارندوں کو برابر کا حصہ ملتا ہے۔ آج کل ریکروٹمنٹ اور سلیکشن معاملات میں اقرباء پروری عروج پر ہے۔مادیت پرستی کی دوڑ میں احساسات و جذبات اور ایمان و غیرت کی کچھ اہمیت نہیں رہی ہے۔ہر کوئی اسی دوڑ میں کہ زیادہ سے زیادہ کیسے کمایا جائے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی غلیظ اور حرام کارانہ طریقہ اپنانا پڑے۔ پیسہ اور صرف پیسہ کمانے کی اس انمٹ ہوس میں انسان سے اس کی انسانیت بھی چھنتی چلی جارہی ہے۔
۲۰۱۶ء میں موجودہ سرکارنے جو ہائر سکینڈری کے لیے استادوں کی بھرتی کرائی تھی اور اس کے لیے ظلم اور نانصافی پر مبنی یہ شرط لگادی تھی کہ منتخب امیدواروں کو ـ’’تیسری زون‘‘ سرحدکے نزدیک والے سکولوں میں کام کرنا ہوگا اورابتدائی پانچ برسوںکے اندر صرف ۱۰ہزار تنخواہ ملے گی۔آج کی دنیا میں ایسی پالیسی صرف ایک جاہل وجابر حکومتی مشنری وضع کرسکتی ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے سرمایہ دارانہ نظام کے چلتے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور ضروریات زندگی اتنی مہنگی ہو تی جارہی ہے کہ ایسے میں جب ایک عام انسان کی ضروریات کا پورا کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن سا ہوگیاہے تو پھر اتنی قلیل تنخواہ میں ایک غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا انسان اپنی ضروریات کوکیسے پورا کرسکتا ہے ؟اتنی قلیل تنخواہ میں سرحدی علاقوں میں اس کی اپنی ضرورتیں بھی نہیں پوری ہو سکتیںاور جب امیدواروں نے اس پالیسی(SRO202) کو واپس لینے کی خاطر موجودہ حکومت کے مختلف وزیروں سے اپیلیں کیں تو ان کو نہ صرف منفی جوابات سننے کو ملے بلکہ نوکریاں چھوڑنے کو بھی کہا گیا اور ناروا سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔المیہ یہ ہے کہ یہ وزیر جنہیں عوام اس لیے منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کی روز مرہ ضروریات اور سہولیات کا خیال رکھیں گے، یہی کرسی پر بیٹھ کرمسائل ٹھنڈے دل ودماغ سے سننے کے بجائے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں سے بد تمیزی سے پیش آتے ہیںاور اپنیـ’’تانا شاہی‘‘ کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ایسا ظلم دنیا کے صرف اس خطے میں ہوتا ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں کا اس قابل اعتراض طریق کار کے علاوہ رشوت کی گرم بازاری اور اقرباء پروری پر چپ سادھے رہنا ان کی منافقت یا کم ہمتی پر دلالت کر تاہے۔
سب لوگ جانتے ہیں کہ حکمران طبقے میں شاہ خرچیاں ہورہی ہیں ،سیاسی چیلے چانٹے کالے دھن سے اپنی تجوریاں بھررہے ہیں اور بڑی بڑی جائیدادیں بناچکے ہیں لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو کئی کئی مہینوں تک تنخواہ نہیں ملتی۔بالخصوص استاد طبقے کو تیسری دنیا کے اس حصے میں جس ذلت وپستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں کرنی پڑتی ہو۔ ایک طرف کم تنخواہوں پر استادوں کا تقرر کیا جاتا ہے اور پھر کبھی کبھی مہینوں کے بعد بھی یہ چھوٹی سی تنخواہیں واگزار نہیں ہوتیں۔موجودہ مخلوط حکومت کے کرتادھرتاؤںکو پتہ ہونا چاہیے کہ اپنے نئے نئے چونچلوں سے وہ زیادہ دیر تک عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے،کیوں کہ آج عوام پہلے سے زیادہ ہوشیار وبردبار ہیں۔وہ حکمرانوں کی چالبازیوں اور دھوکہ دہیوں سے پوری طرح واقف ہیں۔ ہماری مہربان سرکارنے SRO-202 نافذ کر کے کوئی تیر نہیں مارا ہے بلکہ اس نے اپنی ہی غیر مقبولیت کا بیڑہ اُٹھایاہے ۔ حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی عمارت محنت کشوں اور مظلوموں کے زور کے آگے تاش کے پتوں کی طرح بکھر سکتی ہے۔ظلم و انانصافی کو جو تانڈو ناچ اس سرزمین پر چلایا جارہا ہے، وہ زیادہ نہیں چل سکتا ۔ آج کے مہنگائی والے دور میں یہ ایس آر او ’’بیگار‘‘ سے مختلف نہیں جو ڈوگرہ شاہی نے کشمیری عوام پر مسلط کی تھی۔دوسری بات یہ ہے کہ حکومت کو پہلے ان سرحدی علاقوںمیں بنیادی ضروریات کے لیے انتظامات کرنے چاہیے تھے تبجاکر ایسے شاہی فرمان جاری ہوتے تو کوئی بات تھی۔نہ ان علاقوں میں سڑک کا کوئی کارگر انتظام ہے اور نہ ہی ٹریفک کا کوئی ، کہیں کہیں آج اکیسویں صدی میں فون بھی کام نہیں کرتا، باقی سہولیات کی عدم دستیابی کا جتنا رونا جائے کم ہے۔ ہمارے مہربان وزرا ء تو خود دہلی کی چاپلوسی اور جی حضوری کر کے اپنی تجوریوں میں بھرتے ہیں ، خود ائیر کنڈشن بنگلوں میں رہتے ہیں اور مفت میں تمام جدید سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر ایک استاد کو معمولی تنخواہ پر سرحد پر تعینات کر کے بھی کوئی مراعات تو دور وقت پر تنخواہ بھی نہیں دی جاتی۔ ایسی حالت میں ان کی کارکردگی کس جادو سے معیاری ہوسکتی ہے ؟
موجودہ حکومت عوام کے مسائل کا نپٹارا نہیں کر تی بلکہ عوام کی تکالیف اور اذیتوں کو بڑھاواد ینے کو ہی Healing Touch سمجھتی ہے جس کا باربار وعدہ کرکے اس نے عوام سے ووٹ مانگا گیا تھا مگر زمینی سطح پر حالات گواہی دے رہے ہیںکہ یہاںرشوت خوری ، مفاد پرستی اور اقربا، پروری اور آمرانہ نظام عروج پر ہے۔ خاص کرسرکاری ملازموں کو طرح طرح سے پریشان کیا جارہا ہے۔جمہوریت کی جتنی خوبیاں ہیں وہ اس کی چند خامیوں پر بھاری ہیں لیکن جب جمہوریت کے گھر میں جاہل ، رشوت خور اور منافق گُھس پیٹھ کرتے ہیں تو پھر نام کی جمہوریت میں سارا دھندا رشوت خوروں اور دولت کی پجاریوں کے سہارے چلایا جاتا ہے جن کا کام صرف یہ رہتا ہے کہ کس طرح اپنی تجوریاں بھر دی جائیں اور مظلوم اور غریب عوام کا استحصال کیا جائے۔ یہ کام وہ بڑی چالاکی سے انجام دیتے ہیں۔سرمایہ کی لالچ اور روپیوں کی ہوس میں حکومتی اکابرین یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام نے انہیں کرسی پر اسی لیے لایا کہ عوامی مسائل کا حل ہولیکن اس کے برعکس یہ عوامی جذبات کے برخلاف ان کے مصائب میں اضافہ کرتے ہیں۔عوام کو مختلف طریقوں سے غلامی کی زنجیروں میں جھکڑ دیا جاتا ہے اور استحصال کے نئے نئے طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں ۔اس استحصال میں سرکاری و سرمایایہ دارانہ نظام کے اندر پنپنے والے’’ وظیفہ خور سرکاری دانشور حضرات‘‘ حکمرانوں کے کالے کارناموں کی پردہ پوشی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ریاستی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی عوام کش پالیسیوں سے اجتناب کرے اور جو بھی عوام کش پالیسیاں اس نے اب تک بنائی ہیں ،ان پر نظر ثانی کرکے عوامی مفاد میں تصحیح کر ے۔سرکار چلانے والوں پرو اضح ہونا چاہیے کہ وہ عوام ، مزدوروں یا ملازمین پر کوئی احسان نہیں کرر ہے ہیں اور نہ ہی ان کو اپنی محنت ومشقت کی اُجرت نہیں بلکہ خیرات دے ر ہے ہیں ، نہیں ہرگز نہیں ، انہیں اپنا محنتانہ دیا جارہاہے ۔ نیزایک ہی سطح کے ملازمین کی تنخواہوں میں دوہرا معیار اپنانا نہ صرف نا انصافی ہے بلکہ یہ سماج میں طبقاتی کشمکش اور استحصال کی ایک نئی شکل کو جنم دے رہا ہے۔ مزید برآں ملازمین کی چھ چھ مہینوں تک تنخواہیں بند رکھنا، ظلم اور ناانصافی کے سوا کچھ نہیں۔ایسے بہت سارے حل طلب عوامی مسائل ہیں جن کو موجودہ حکومت سرد خانے میں ڈال کر شاید یہ سوچا ہے کہ عوام خواب غفلت میں ہیں ، آج بھی ڈوگرہ شاہی چل رہا ہے اور ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں، جو مرضی کر گزریں، لیکن یہ سوچ بہت ہی گئی گزری ہے ، دقیانوسیت ہے اور فرسودہ ہے کیونکہ عوام وقت پر حکمرانوں کو کارکردگی کے آئینے میں یاتو قبولتے ہیں یا خس وخاشاک کی نذر کر دیتے ہیں۔
رابطہ :جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
ای میل[email protected]