مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
فرمان حق تعالی یوں آیا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لئے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اُٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (سورۃ توبہ آیات ۳۸ تا ۳۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ میں حق و باطل کی کئی معرکہ آرائی ہوئیں، جس میں غزوہ تبوک بھی ایک اہم غزوہ ہے جو آپ ؐ کی حیاتِ مبارکہ کا آخری غزوہ کہلاتا ہے۔ سنہ ۸ ہجری میں مکہ فتح ہوا اور غزوۂ حُنین بھی پیش آیا، اس سے فارغ ہونے کے بعد جب آپؐ مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع پہنچی کہ شاہِ روم ہرقل مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اپنی فوجی قوت کو مقام تبوک جو سرحد شام پر واقع ہے پر جمع کررہا ہے، اس طرح وہ عرب کے بعض قبائیل کو بھی اس میں شامل کرلیا ہے اور اس کا ارادہ یہ ہے کہ اچانک حملہ کردیا جائے۔ غرضیکہ نبی کریمؐ نے اس سلسلہ میں یہ فیصلہ فرمایا کہ ہرقل کے مدینہ آکر حملہ کرنے سے پہلے ہی پیش قدمی کرتے ہوئے اس کی فوجیں جہاں جمع ہیں وہیں پر مقابلہ کیا جائے۔ رسول اللہؐ اس موقع پر سارے مسلمانوں کو اس جہاد میں شرکت کرنے کا حکم فرمایا اور ساتھ ساتھ قرب و جوار میں رہنے والے قبائل کو بھی اس میں شامل ہوجانے کے لئے دعوت دی۔
مسلمانوں نے غزوہ تبوک سے قبل جتنی بھی جنگیں لڑیں تھیں وہ سب کے سب غیر تربیت یافتہ جنگجوؤں سے سابقہ تھا لیکن اب کی بار ہرقل کی زبردست تربیت یافتہ فوج سے پنجہ آزمائی تھی ،اس طرح اسلامی تاریخ میں جنگ تبوک کو ایک علیحدہ مقام حاصل ہے۔ اس جنگ میں جانثاران اسلام کا سخت امتحان تھا اور اس آزمائش میں یہ متبرک لوگ کامیاب بھی ہوئے۔ دوسری جانب چند ایک حضرات نے اس سلسلہ میں صرف کاہلی کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوسکے جو بعد میں اللہ تعالیٰ نے زجر و تنبیہ کی اور بالآخر ان کی توبہ قبول فرمائی۔ مضمون کے ابتداء میں جو آیات پیش کی گئی ہیں ،دراصل یہ اہل ایمان کو جنگ پر اُبھارا گیا ہے اور یہ بات واضح فرمادی گئی کہ دنیا، آخرت کے مقابل کچھ بھی نہیں ہے۔
حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے اس سلسلہ میں یوں تحریر فرمایا ہے، جو آیتیں اوپر لکھی گئی ہیں بظاہر ان کا تعلق اس چوتھی جماعت سے ہے جو بغیر کسی صحیح عذر کے اپنی سُستی اور کاہلی کی بنا پر شریک جہاد نہیں ہوئے۔ پہلی آیت میں ان کی اس کاہلی اور غفلت پر تنبیہ کی گئی اور اس کے ساتھ ان کے اس مرض غفلت و کاہلی کا سبب اور پھر اس کا علاج بھی ارشاد فرمایا گیا، جس کے ضمن میں یہ بھی واضح ہوگیا کہ ’’دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت تمام جرائم کی بنیاد ہے‘‘۔ (معارف القرآن جلد چہارم صفحہ نمبر ۳۷۸)
پہلی آیت میں یہ بات واضح کردی گئی کہ جو لوگ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں، وہ گھاٹے کا سودا کرتے ہیں اور اس خسارہ کا احساس آدمی کو اس وقت ہوگا ،جب وہ آخرت میں اپنے ترازو کو دیکھے گا۔حضرت مولانا مودودیؒ نے آیت مذکورہ کے دو مطلب بتائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ :اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں :’’ایک یہ کہ عالم آخرت کی بے پایاں زندگی اور وہاں کے بے حد حساب ساز و سامان کو جب تم دیکھو گے تب تمہیں معلوم ہوگا کہ دنیا کے تھوڑے سے عرصہ حیات میں لطف اندوزی کے جو بڑے سے بڑے امکانات تم کو حاصل تھے اور زیادہ سے زیادہ جو اسباب عیش تم کو میسر تھے ،وہ ان غیر محدود امکانات اور اس نعیم و ملک کبیر کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے اور اس وقت تم کو اپنی اس ناعاقبت اندیشی و کم نگاہی پر افسوس ہوگا کہ تم نے کیوں ہمارے سمجھانے کے باوجود دنیا کے عارضی اور قلیل منافع کی خاطر اپنے آپ کو ان ابدی اور کثیر منافع سے محروم کردیا۔ دوسرے یہ کہ متاع حیاۃِ دنیا آخرت میں کام آنے والی چیز نہیں ہے۔ یہاں تم خواہ کتنا ہی سروسامان مہیا کرلو، موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہر چیز سے دست بردار ہونا پڑے گا اور سرحدِ موت کے دوسری جانب جو عالم ہے وہاں ان میں سے کوئی چیز بھی تمہارے ساتھ منتقل نہ ہوگی۔ وہاں اس کا کوئی حصہ اگر تم پاسکتے ہو تو صرف وہی جسے تم خدا کی رضا پر قربان کیا ہو اور جس کی محبت پر تم نے خدا اور اس کے دین کی محبت کو ترجیح دی ہو۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم صفحہ ۱۹۴)
دوسری آیت کریمہ میں یہ بات بتلائی گئی کہ اگر اللہ کی راہ میں لڑنے تم نہ اُٹھو گے تو اللہ دردناک سزا دے گا اور تہیں ہٹاکر تمہاری جگہ کسی اور قوم کو اُٹھائے گا اور تم خدا کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے کیوں کہ وہ بڑی قدرت والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔آیات کریمہ کی روشنی میں سونچنے کے پہلو یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کلمۂ حق کی بلند اور کلمات کفر کو پست کرنے کی سعی کرنا مظلوموں کی حمایت، انسانوں کے ناحق قتل اور غارتگری کو روکنا اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس کے لئے مقدور بھر کوشیں کرنا وغیرہ یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، کیوں کہ امن و امان سے ہی نوع انسانی کی بقاء و سلامتی ہے۔ اگر صاحب اقتدار لوگ قیام عدل و انصاف کی سعی نہ کریں ، اسے قائم کرنے کی جدوجہد نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اقتدار سے ہٹاکر ان کی جگہ دوسروں کو اقتدار سونپے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لئے عالم اسلام کی ساری قوتیں اپنے آپ کو یکسو کرلیں اور دنیا اسلام اور انسانیت پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں جیتی جاگتی،زندہ بستیوں کو لمحوں میں قبرستان بنادی جارہی ہے، اس کے سدباب کے لئے وہ(حب الدنیا وکراھیتہ الموت)کی حالت سے باہر نکلیں اور اللہ کی عطا کردہ دولت، جو مختلف نعمتوں کی شکل میں بھرپور حاصل ہے اسے خدمت حق کے کام میں لگائیں، منکرین حق کی اطاعت و غلامی سے نکل کر اللہ الٰہ واحد کی بندگی اختیار رکریں اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کی جو نعمت عطا کی ہے اس کی قدر کریں۔ دوسری چیز یہ کہ عالم اسلام کا عظیم اور واحد روحانی مرکز ’’حرم مکی‘‘ کی مجاوری پر جو لوگ فائز کئے گئے ہیں ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کی رہنمائی کریں اللہ کی عطا کردہ دولت کو ملت اسلامیہ کی حفاظت اور اشاعت دین پر خرچ کریں، ورنہ اللہ تعالیٰ اس عظمت والے منصب سے ہٹاکر کسی اور کو اس پر فائز کردے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عیش و عشرت کے سارے سامان چھین لے کر نمونۂ عبرت بناکر رکھ دے گا۔ کیوں کہ وہ بڑا زبردست اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ آیت کریمہ کے آخری حصہ کی تشریح فرماتے ہوئے حضرت پیر محمد کرم شاہؒ ازھری نے یوں تحریر فرمایا ’’دین اسلام کی خدمت گذاری تمہیں پر موقوف نہیں، اسلام کا نور تو ہمیشہ فروزاں رہے گا اور اس کا پرچم تا ابد لہراتا رہے گا۔ یہ کام اگر تم نے نہ کیا تو کوئی دوسرا یہ سعادت حاصل کرے گا اور تمہیں محروم کردینے سے خدا کی خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ (ضیاء القرآن ، جلد دوم صفحہ نمبر۲۰۵)
(رابطہ۔ 9849099228)
[email protected]