محمد ریاض ملک
قدرت کی پیداکردہ اس سرزمین پر کچھ اسے لوگ بھی ہیںجواپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے کچھ کر گزرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ جنہیں تلاش کرنا مشکل ہی نہیں اس نفسانفسی کے زمانے میں ناممکن بھی ہے۔لیکن کچھ مشکل بھی نہیں جب کسی انسان کے دل میں جذبہ خدمت خلق اور اپنی زمہ داری کا بروقت احساس ہوجائے۔جموں وکشمیر کے ڈوڈہ ضلع سے قریب 35کلومیٹر دور دورافتادہ پسماندہ اور پہاڑی تحصیل مرمت میں ایک نوجوان نے منجملہ عوامی مفاد عامہ کے لئے جو کام کیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔تحصیل دار کے عہدے پر تعینات ضلع پونچھ کی تحصیل حویلی کا یہ نوجوان مرمت ظہیر رانا، جن کی عمر 40سال ہے، نے عوامی مفاد عامہ کے کام کو زمینی سطح پر کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔وہ ایک طرف جہاں دفتری اوقات میں عوام اور سرکاری کام کو بحسن خوبی انجام دیتے ہیں وہیںعوامی تعاون سے بچوں اور نوجوانوں کے لئے الگ سے جزبہ خدمت خلق کوبھی انجام دے رہے ہیں۔ان کے ذریعہ پہلے ایک چشمہ کی بہترین تعمیر ،اس کے بعد ہائر سیکنڈری سکول مرمت میں خوبصورت سٹیج کی تعمیر اور تیسرا سب سے اہم اور بڑا کام ایک کھیل کے میدان کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیناہے۔ جس کو نہ صرف تعمیر کرنے کے لئے کروڑوں روپے درکار تھے بلکہ صرف اس بنجر اور پتھریلی زمین کو ہموار کرنے کے لیے بھی کروڑوں روپے کا فنڈ درکار تھا۔ مگر 10 کنال سے زیادہ رقبے کو تحصیلدارنے مرمت کر کھیل کا میدان تعمیر کروانا شروع کر دیا، جس کا کام جاری ہے اور اب تک 75 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور باقی کام دن رات تیزی سے جاری ہے ۔
اس کام کو کرنے کے لئے تحصیلدار کی طرف سے ایک منفرد طریقہ کار اختیار کیا گیا جس میں کسی بھی پیسے کا استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہائی وے کے جاری کام میں زمین کی کٹنگ سے نکلنے والے ملبہ کو اس کام میں استعمال کیا گیا ہے۔ ہائی وے پر کمپنی کے ساتھ یہ ترکیب بنائی گئی کہ وہ ملبہ کو نالے، روڈ کے کنارے، جنگلات کے علاقے یا لوگوں کی زمینوں میں نہ ڈالے۔ جس سے ماحولیات کا نقصان ہو بلکہ اس کے لئے تحصیلدار مرمت نے قریب میں ایک جگہ تعین کی اور کمپنی کو وہاں ملبہ گرانے کے لئے کہا گیا۔ اس ملبہ سے کھیل کے میدان کا تعمیری کام شروع کر دیا گیا۔ اس ترکیب سے نہ صرف ماحولیات کی حفاظت ہوئی بلکہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا کھیل کا میدان وجود میں آ گیااور کمپنی کو نزدیک جگہ فراہم کرنے سے وقت اور وسائل کا بچاو بھی ہوا۔اس بہترین سوچ اور جزبہ خدمت خلق کو ایک مقامی نوجوان سریش شرما جن کی عمر قریب 35 سال ہے، انہوں نے کہاکہ یہاں ایک تقریب کے بعد معلوم ہواکہ درنگا مرمت میں ایک کھیل کے میدان کا کام لگایا گیا ہے۔
جس کا سہرا تحصیلدار مرمت کے سر ہے ۔جنہوں نے دھرم ،ذات اور اپنی ڈیوٹی سے اوپر اٹھ کر یہاں کے نوجوانوں کے لئے ایک ایسا کام کیاہے جو نسلوں تک باقی رہے گا۔مرمت کے ایک اور نوجوان سوشل ورکر محمد سعید خان جن کی عمر 43 سال ہے، انہوں نے کہاکہ تحصیل مرمت کے درنگا علاقع میں جو گرائونڈ کا کام چل رہاہے، اس کا پورا کریڈٹ تحصیل دار مرمت ظہیر رانا صاحب کو جاتاہے۔ پچھلے ستر سالوں سے ہم یہاں گراونڈ کی مانگ کرتے آے ہیں۔ اس دوران کئی تحصیلدار آے اپناوقت گزارا اور چلے گئے۔مگر جب سے یہ تحصیلدار کے طور پر یہاں تعینات ہوئے ہیںتب سے یہاں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ چل پراہے۔انہوں نے گوہا مرمت میں ایک مشہور چشمہ ہے جس کی بہترین انداز میں تعمیر کی ہے۔وہیں مرمت سکول میں ایک سٹیج کی تعمیر کرکے دیا۔جبکہ تیسرا سب سے بڑا کام مرمت کے علاقع درنگا میں کھیل کا میدان تعمیر کیاجارہاہے ۔
مرمت بیوپار منڈل کے صدر پردیپ کمار نے کہاکہ ہمارے مرمت سنٹر درنگا کے اندر جو گراونڈ کا کام کیاگیاوہ صرف اور صرف تحصیلدار مرمت ظہیر رانا کی کاوش ہے۔ ایسا ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ جیسا انہوں نے یہاں ایک گراونڈ کو تعمیر کرنے کو ممکن بنادیا ہے۔جس کی وجہ سے عوام مرمت ان کے مشکور رہے گی ۔اس طرح کے افیسران اگر ہر جگہ ہوجائیں تو ترقی کی بہاریں دیکھنے کو ملیں گیں کیوں کہ یہ زمینی سطح پر عوام کے ساتھ جڑے ہوے ایمانداری دیانتداری اور خلوص دل سے کام کررہے ہیں۔محمد یاسین وانی، جن کی عمر40 ہے جو کہ انڈین آرمی سے ریٹائیرڈ ہیں،انہوں نے کہاکہ مرمت کھیلنی سڑک پر چل رہے تعمیری کام کا ملبہ یہاں استعمال میں لایاگیا۔ جو ملبہ فضول میں برباد کیاجارہاتھا۔یہ دوراندیشی کے ساتھ کام کیاگیا قابل تعریف کام ہے۔یہی نہیں بلکہ متعدد سماجی وسیاسی لوگ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوے کہ ظہیر رانا جیسا کام کا آفیسر نہ ہوا ہے اور نہ شائد مستقبل میںہوگا۔جنہوں نے بغیر کسی سرکاری فنڈ کی واگزاری کے بغیر اپنی حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوے لوگوں کے زریعہ سے لوگوں کے فلاحی کام کرواکر یہ ثابت کردیاکہ بلند حوصلے ہوں توکوئی بھی کام مشکل نہیںہو سکتا ہے۔ تحصیل مرمت ہائیر سیکنڈری کے پرنسپل پنچائیت کے اراکین ودیگر لوگ بیک زبان یہی دعادے ر ہے ہیںکہ تحصیلدار مرمت نے ہمیں محتاج نہیں خود مختار بننے کا بہترین سبق دیاہے۔
اس حوالے سے جب ضلع پونچھ کے اس نوجوان تحصیلدار مرمت ظہیر رانا ہکلہ سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھا کہ 2009میں میری نائب تحصیلدار کی حیثیت سے تعیناتی ہوئی تھی۔ جس کے بعد2014 میں پروموشن ہوکر تحصیلدار کے عہدے پر فائیز ہوا۔ اس دوران ضلع پونچھ تحصیل منڈی،ضلع راجوری کے تحصیل منجا کوٹ ودیگر جگہوں پر اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوے اب ضلع ڈوڈہ کی مرمت تحصیل میں تحصیلدار کے عہدے پر ہوں ۔ اس سے قبل بھی یوں کچھ کام کئے۔ ہمیشہ میری یہ کوشش رہتی ہے کہ میں اپنی ذمہ داری جو مجھے سرکار نے سونپی ہے اچھے سے انجام دوںاور باقی ماندہ وقت بھی میں عوامی خدمت میں صرف کروں۔ 2021 سے میں یہاں تحصیل مرمت میں تعینات ہوں۔ سب سے پہلے یہاں ایک بہترین چشمہ میری نظروں سے گزرا جس سے ایک بہت بڑی بستی فیضیاب تو رہی تھی۔ مگر اس کی حالت ناگفتہ بہہ تھی۔ جس کا کام یہاں روڈ کا کام کرنے والی کمپنی کے ساتھ مل کر شروع کیاگیا اور اس کام کو مکمل کرنے کے لئے مقامی لوگوں کو بھی شامل کیا گیا۔ اس کے لئے عوام کو سماجی کاموں میں شامل ہونے کی ترکیب دی گئی اس طرح یہ چشمہ چاردیواری کے ساتھ ساتھ یہاں بہترین ٹائیل وغیرہ لگاکر تیار کر لوگوں کے حوالے کیاگیا۔ جہاں سے تمام لوگ فیض یاب ہورہے ہیں۔
دوسراکام یہاں ہائیر سیکنڈری اسکول گوہا ہے۔ جہاں مختلف قسم کے پروگرام منعقد ہوتے تھے، تقریبات منعقد ہوتیں۔ بچوں کے رنگا رنگ تمدنی پروگرام ہوتے۔جن کے لئے سکول میں صحن تو تھا۔ لیکن یہاں سٹیج نہیں تھا۔ گوہا کھیلانی روڈ میں ملوث کمپنی شری ردھی سدھی بلڈ ویل لمیٹیڈ کے اشتراک سے ایک خِوبصورت اسٹیج تعمیر کیا گیا جس پر چارلاکھ سے زائید کی رقم صرف ہوئی ۔820 مربہ فٹ اس سٹیج کو تیار کرکے سکول انتظامیہ کے حوالے کیاگیا۔ اس کے علاوہ میری نظروں میں نوجوانوں کے لئے کھیل کود کے لئے کھیل کا میدان اور اس کی تعمیر کے لئے جگہ کا تعین تھا۔یہ میرے لئے ایک چیلنج بھی تھا کیوں کہ ہمارے نوجوان منشیات کی طرف جارہے ہیں۔ان کو کھیل کود کی طرف راغب کرنا از حد ضروری تھا۔تاکہ نوجوان منشیات اور بری عادات کو چھوڑ کر کھیل کود کی طرف راغب ہوں۔ اس کام کی لئے کھیل کا میدان ضروری اور میدان کے لئے جگہ اشد ضرورت تھی۔
آخرکار گوہا میں ایک سرکاری جگہ کا تعین کیاگیا۔ جس کا ہموار کرنااگر چہ بہت ہی دشوار تھا۔ 2021 میں یہ منصوبہ شروع کیاگیاتھا۔اس کام میں میرے ساتھ جہاں دیگر افراد کام میں جٹ گئے ہیںوہی ایک تعمیراتی کمپنی شری ردھی سدھی بلڈ ویل لمیٹیڈ نے بھی اس کام میں اپنا تعاون پیش کیا۔ اب تک مشینری اور لوگوں کے زریعہ کام مکمل جاری ہے۔ یہاں مرمت تا کھیلنی سڑک کی تعمیر کاکام میری خوابوں کی تعبیر میں مددگار ثابت ہوا۔ کمپنی سے بات کرکے اس سڑک کاملبہ بجاے ضایع کرنے کے یہاں اس گرونڈ کی جگہ ڈالنے پر امادہ کرلیاگیا۔ وہاں کمپنی کا کام بھی ہوتارہااور یہاں ملبہ گراونڈ کی تعمیر میں کارگر بن گیا۔ اس طرح بہت بڑا گرونڈ جو دس کنال سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے تیار ہونے جارہا ہے۔ جس پر لاکھوں کا بجٹ صرف ہواہے۔ لیکن یہ گراونڈ سرکاری بجٹ سے نہیں بلکہ حکمت عملی اور حقیقی جزبہ خدمت خلق کے تحت تعمیر ہورہاہے۔
اگر یہ ترکیب نہ نکلی ہوتی تو برسوں اور گزر جاتے نہ چشمہ صاٍف وشفاف بن سکتا،نہ سکول میں پروگرام کے دوران آفیسران یا سماجی وسیاسی لوگوں کے لئے شان سے بیٹھنے کی جگہ دستیاب ہوتی اور نہ ہی یہ قریب د س کنال پر کھیل کا بہترین میدان تعمیر ہورہاہوتا۔ایک فرد نے کمر باندھ لیاتو لاکھوں روپیہ لاگت کے کام اپنے انجام کو پہونچ گئے۔ جن سے صدیوں لوگ فیضیاب ہونگے۔اصل بات یہ ہے کہ اس دور میں جب سب کچھ پیسہ ہی ماناجارہاہے تو اگر ایک نوجوان افسر اس طرح کا کارنامہ انجام دے کر قوم کے نوجوانوں کے لئے ایک بہترین کھیل کا میدان تعمیر کراسکتا ہے، قدرتی چشمہ کو بہترین طریقے سے سنوار اور درو دیوار سے مزین کرسکتاہے اور قوم کے نونہالوں اور انے والی نسلوں کے لئے ایک بہترین سٹیج تعمیر کرواسکتاہے۔تو کئی اور بھی آفیسران، عہدداران،سیاسی وسماجی نمائیندگان بھی تو اس مثال کو قائیم کرسکتے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ پر ہی سارا بوجھ ڈالنے کے بجاے جزبہ خدمت خلق کو بروے کار لانے کے لئے سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ بس حقیقت یہ ہے کہ اگر حوصلے بلند ہوں تو انسان کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہے۔(چرخہ فیچرس)
پتہ۔منڈی، پونچھ،جموں وکشمیر
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)