فدا حسین بالہامی
ایک دولت مند شخص نے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے سامنے بٹھایا اور ان سے پوچھا:’’اگر میں تم لوگوں سے کہوں کہ تم آج میری جمع پونجی میں سے جو کچھ بھی مانگنا چاہو، مانگ سکتے ہو، تو تم کیا طلب کرو گے؟ایک بچے نے خوش ہو کر کہا، ’’میں فلاں قیمتی گاڑی مانگوں گا!‘‘دوسرے نے کہا، ’’مجھے ایک عالی شان بنگلہ چاہیے!‘‘تیسرے نے پُرجوش ہو کر کہا، ’’مجھے اپنی سب سے بڑی کاروباری کمپنی کا مالک بنا دیجیے!‘‘مگر پاس بیٹھی اس کی سب سے چھوٹی بیٹی خاموشی سے اپنے باپ کے چہرے کو تک رہی تھی، گویا وہ ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہو کر کسی اور ہی طلب میں گم تھی۔دولت مند شخص نے جب اپنی لاڈلی بیٹی کو یوں متفکر اور خاموش پایا تو شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا:
’’بیٹا، تم خاموشی سے مجھے یوں گھور کیوں رہی ہو؟ جلدی سے بتاؤ، تمہیں کیا چاہیے؟‘‘چھوٹی بچی نے معصومیت سے جواب دیا:’’بابا! مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔۔۔بس آپ!‘‘یہ جواب سن کر دولت مند شخص حیرت اور محبت کے ملے جلے جذبات میں ڈوب گیا۔اس کم سن مگر بے لوث محبت کی حامل اور اعلیٰ ظرف بچی کی بے نیازی نے باپ کے جذبات و احساسات کو مہمیز دی ،اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ آ گئے ۔’’بیٹا !نہ صرف میں تیرا ہوں بلکہ جو کچھ میر ا ہے وہ تیرا ہی ہے۔‘‘
کاش! ایک انسان کا اپنے خالق و مالک سے بھی یہی معصومانہ طلب ہوتی۔ہم اپنے ربّ سے جانے کیا کچھ مانگتے ہیں،مال، دولت، عزت، شہرت، عہدے، کامیابیاں،مگر اس سے خود اُسے نہیں مانگتے! اگر ایک لمحے کے لیے یہ سوچیں کہ جس ذات سے ہم سب کچھ طلب کرتے ہیں، اگر وہی ذات ہماری ہو جائے تو پوری کائنات ہماری مٹھی میں آ جائے!محبوب ِ حقیقی بھی یہی چاہتا ہے کہ میرا بندہ و محب میرا ہو جائے اور میرا ہی ہو کے رہ جائے۔ اسی لئے اپنے بندے سے حدیث ِ قدسی کے ذریعے یوں مخاطب ہے کہ ’’اے میرے بندے! تُو میرا ہو جا، میں تیرا ہو جاؤں گا۔‘‘( حدیث قدسی)۔اس جملے میں خداوند کریم اور بندے کے مابین دو طرفہ اور آپسی تعلق کی تصویر کشی چند ایک گہرے مطالب کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
(۱) خالقِ کائنات چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے ساتھ خلوص و محبت پر مبنی ایک ابدی اور سرمدی قرب و تعلق پیدا کرے۔(۲) اس جملے میں اس لحاظ سے اپنائیت اور اختصاص کی بو مشامِ بندگی دو ر سے محسوس کرتی ہےکہ اس میں صیغہ واحد متکلم ہے جس کا مخاطب بھی واحد ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ ہر بندے سے خصوصی طور پر مخاطب ہے۔ اور خدا اور بندے کے درمیاں بالمشافہ اور انفرادی مکالمہ ہےکہ جہاں درمیاں میں اور کوئی نہیں ۔(۳)اب اگر خالق ِ کائنات اپنے ہر بندے سے خصوصی طور مخاطب ہے تو راہِ بندگی میں قدم بڑھانے کے لئے اسے بڑھ کر حوصلہ افزا بات اور کیا ہوسکتی ہے۔(۴) ہیت کے اعتبار سے بھی یہاں پر تہدید و تشدید کا شائبہ تک دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بلکہ اس جملے میں ماں کی مامتا میں ڈھلے نرم و ملائم اورپُر کشش الفاظ ہر سمیع و بصیر فرد کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔(۵) سب سے بڑی خوشگوار نوید اس حدیثِ قدسی میں یہ ہے کہ ایک بندے کو یہی باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر وہ خدا کا ہو جائے تو خدا بھی اسے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وہ بھی لازماً اسی کا ہو جائے گااور جب پروردگار اس کا ہوجائے تو اس کی خواہش مرضی ٔ رب کی تابع ہو جائے گی۔ پھر اسی مقام پر ایک بندے کے لئے’’ مرضیٔ مولا از ہمہ اولیٰ‘‘ بن جاتی ہے،اور یہی مقام ہے کہ جہاںخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضاکیا ہے۔
(۶)ـ اس حدیثِ قدسی کا قرآنی مترادف اگر ڈھونڈنا ہو تو فوراً ذہن میں قرآن کے یہ الفاظ گونجنے لگتے ہیں ۔ کہ اللہ فرماتا ہے:’’پس تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا، اور میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ 152) ۔عبودیت کی اسی منزل کو اگر منزلِ منتہا کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جہاں ایک جانب بندہ خدا کو یاد کرے تو دوسری جانب نہ صرف خدا واند کریم اس کی یادو فریاد کو سن لے بلکہ وہ بھی جواباً اسے یاد کرے۔اسے بڑھ کر ایک بندے کی مراد اور کیا ہو سکتی ہے کہ بارگاہِ خداوندی میں اس کا تذکرہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ جو بندہ ٔ خدا عبودیت کے اس مقام پر فائز ہوتاہے کہ اسے بزبان ِ قرآن بارگاہِ ایزدی سےیہ صدا صاف سنائی دیتی ہے کہ یاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ(27)ارْجِعِیْ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً(28) ۔مفہوم:’’ اے جانِ مطمئن !اپنے ربّ کی جانب اس حال میں لوٹ آکہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔‘‘
یہاں پر ضمناً اس بات کی وضاحت لازمی ہے کہ’’ تعلق باللہ ‘‘اور ’’قربِ خدا‘‘کی عظیم نعمت سے فیض یابی سے یہ ہرگز مراد نہ لی جائے کہ اس کا حصول نہایت ہی آسان ہے اور اس کا حاصل کنندہ کسی بھی آزمائش و ابتلا میں مبتلا نہیں ہوتا۔ خدا وند ِ کریم نے اس دنیا کو انسان کے لئے امتحان گاہ قرار دے رکھا ہےاور اپنے مقرب بندوں کو بھی بہرحال اس آزمائش گاہ سے گزارنے کا ارادہ کر چکا ہے، لھٰذا ان دنیاوی آزمائشوں سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے، بلکہ جتنا بندہ مقرب ہو گا اس نے اسی قدر سخت ترین مراحل کا سامنا کیا ہوگا ۔ اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جس نے اسے اپنا بنا لیا اس کے وارے نیارے ہوگئے ۔ اسے کسی بھی زَرو نقصان کا سامنا ہی نہیں ہو گا۔تقرب الی اللہ کی راہ تو قربانیوں اور جانفشانیوں سے عبارت ہے۔ اس راہ میں مال و متاع اور اولاد کو اقربا ءتک گنوا نے کے بعد اُف تک کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ راہِ خدا تو بارہاہ خونِ شہداء سے رنگین ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس راہ میں سب کچھ لُٹ جانے کے بعد بھی کچھ بھی نہیں لٹتا ہے۔کیونکہ اس راہ کے راہی دنیاوی سود و زیاں سے بے پروا ہو جاتے ہیں۔ ایسے عاشقانِ محبوب حقیقی بظاہرہار کر بھی جیت جاتے ہیں، مر کر بھی زندہ وجاوید ہوتے ہیں، وہ اذیت میں بھی لذت محسوس کرتے ہیں، وہ اس امر سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ دنیاوی اور وقتی ذلت کو اخروی اور ابدی عزت و افتخار میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔انہیں وحشتناک ماحول میں پُرسکون و مطمئن رہنا آتا ہے۔حتیٰ کہ نار ِ نمرود کے فلک بوس شعلوں میں بھی مستانہ وار یہ نعرہ لگاتے ہیں ؎
ہوں آتش ِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندہ ٔ مومن ہو ں نہیں دانۂ اسپند (اقبال)
عاشقانِ راہ حق کے سرخیل امام حسین ؑ نے اس پورے موضوع کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ ایک ہی جملے میں فصیح و بلیغ انداز میں بیان فرمایا ہے: ’’ بارالٰہا! جس نے تجھے پایا اس نے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھویا اس نے کیا پایا۔‘‘یہ فقرہ مشہور و معروف دُعا یعنی دعائے عرفہ کا ہے، جو امام حسین ؑ نے میدان عرفات میں اس زبانِ مبارک پر جاری کیا تھا جو سب سے پہلے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان ِ مبارک سے متصل ہو گئی تھی ۔جن حالات میں یہ دعا معرض ِ وجود میں آئی تھی ۔ وہ حالات عالم ِ اسلام علی الخصوص امام حسین ؑ کے حق میں قطعاً موافق نہیں تھے۔ ناامیدی کی ٖفضا میں یہ امید افزا فقرے کا سیاق سباق دیکھا جائے تو یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ اس دور میں تختِ خلافت پر یزید جیسا بدکار شخص براجمان تھا ۔اکابرین امت خوف و وحشت کے عالم میں دم بخود تھے۔ وہ تمام حلقوم دبا دئیے گئے تھے کہ جن سے صدائے حق سنائی دینے کا خدشہ تھا۔ یزید نے امام عالی مقام سمیت تمام تر سربرآوردہ شخصیات پر ایک ایسا شکنجہ کساتھا جس کے ہوتے ہوئےصدائے احتجاج تو دور کی بات، سانس لینا بھی مشکل تھا۔ لیکن امام حسینؑ تو عاشقانِ راہِ حق کے سرخیل تھے۔انہوں نےباطل پرستی کے گھٹا ٹوپ اندھیارے میں چراغِ حق کو روشن و فروزاں رکھا اور جانتے تھے کہ اس چراغ کو خون ِجگر سے روشن رکھا جا سکتا ہے۔ اسی لئے خدا کے گھر سے خدا کی جانب اولین قدم اٹھاتے وقت ہی مشیت ِ الٰہی کے اس رازسے پردہ ہٹا دیا کہ راہِ خدا میں اگر اپنا گھر بار، مال و اولاد، عزیز و اقارب کو بھی قربان کرنا پڑے تو گھاٹے کا سودا نہیں ہے ۔ اپنی جان جان آفرین کے حوالہ کرنا پڑے تو کوئی دریغ نہیں کرنا ہوگا کیونکہ جب ان سب قربانیوں سے خالق و مالک کی رضا حاصل ہو جائے تو پھر غم کس بات کا! المختصر راہِ سیدالشہدا جو اصل میں راہِ خدا ہے، میں مصائب و آلام کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ یہاں مصیبتوں کے نرغے میں بھی سب سے بڑی ڈھارس آ کے عشق کے متوالوں کو تھام لیتی ہے۔ زخم خوردہ افراد کے لئے دستِ قدرت خود ہی مرحم کا بند و بست کرتا ہے۔ جب اس راہ میں سب ساتھ چھوڑ دیں اور کوئی حامی و ناصر نہ ہو تو وہ توکل علی اللہ کا لباس زیب ِ تن کر کے ایک مردِ مؤمن یہ فقرے زبان سے دہراتا ہے کہ اے خدا یا! میرے لئے تیرے سوا کون ہے ۔ہر سو دشمنوں کا حملہ ہو اور کوئی پشت پناہ نہ ملے تو ایسے میں اس بات پر اس کا یقین دو چند ہوتا ہے کہ ’’ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے وہی میرا بہترین والی و مددگار ہے۔‘‘اسی منزل کو قرآن کی اصطلاح میں ’’عین القین‘‘ کی منزل کہا جاتا ہےجو راہروراہ ِ حق اس منزل کو سر کر لے ۔ وہ جس قدر بھی فخر و مباحات کرے کم ہے۔کیونکہ اس کے ہاتھ کائنات کی سب سے مطلوب اور قیمتی شئے آگئی ہے ۔اس کا یوں خدا وند ِ کریم کی بارگاہ مناجات کر نا کس قدر بامعنی اور باارزش ہےکہ’’اے میرے اللہ! میرے لیے یہی عزت کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے لیے یہی فخر کافی ہے کہ تو میرا ربّ ہے۔‘‘(حضرت علیؑ)
مگر افسوس کی ان خاصانِ خدا کی پیروی تو دنیا میں مفقود ہے۔ عمومی طور پر خدا کے بندے تو خدا سے ہر جائز و ناجائز شئے مانگتے ہیں۔ اگر کوئی مراد و آرزو ان سے دعا میں چھوٹ جاتی ہے تو وہ ہے رضائے الٰہی ۔یہ خدا کو چھوڑ کر خدا کی خلق کردہ ہر شئے کو اپنا بنانے کے فراق میں ہیں۔ اس صورت ِ حال کو وفا ملک پوریؔ نے اپنے پروردگار سے مخاطب ہو کر ایک شعر میں نہایت ہی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
سب مانگ لیا تجھ سے، پر تجھ کو نہ مانگا
حق یہ ہے کہ توہین ِدعا ہم سے ہوئی ہے
[email protected]