طارق شبنم
اُم المومنین حضرت عائشہ ؓبلند پایہ اور جلیل القدر صحابیہ تھی، جنہوںنے دین محمد یؐکی آبیاری کے لئے اور شریعت محمدیؐ کو امت مسلمہ تک پہنچانے میں انتہائی عظیم کارہائے نمایاںانجام دئے ہیں،جنہیں رہتی دنیا تک قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا ۔حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت اور بزرگی کے لئے یہی کافی ہے کہ آپؓ نو برس تک حضرت رسول نازنین ؐکی صحبت میںرہیںاور آپؐ کی سب سے زیادہ محبوب تھی۔
حضرت عائشہؓ خلیفہ اول ابو بکر صدیق ؓ کی صاحبزادی تھی ۔ان کی والدہ کو امّ رومان کہتے تھے جن کا نام ’’زینب‘‘جب کہ بعض روایات کے مطابق ’’وعد‘‘تھا ۔عائشہ ؓ جب تولد ہوئی تو رسول ناز نینؐ ؐ کی نبوت کو چار برس ہو چکے تھے ۔حضرت صدیق ؓکے بچوں میں عائشہ ؓ اپنی ذہانت،دانشمندی،فہم وفراست اور سلیقہ شعاری کی وجہ سے امتیازی مقام رکھتی تھی، جس بنا پر انہوںنے اس کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ علم وفضل کے اعتبار سے سب بھائی بہنوں پر سبقت لے گئی۔
حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کے انتقال فرمانے کے بعد جب حضور پر نورؐکا نکا ح حضرت عائشہؓ سے ہوا تو عا ئشہ ؓنے خدیجہ ؓ کی جدائی کے بعدحضور پر نو رصلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل اور کٹھن حالات میںقدم قدم پر سہارا دیا اور دل وجان سے آپ ؐکی خدمت میں لگی رہی۔حضورپر نورؐ عائشہؓ کو ’’حمیرہ‘‘کہہ کر پکارتے تھے اور آپ ؐ کو جو محبت عائشہ ؓسے تھی، وہ کسی اور ازواج سے نہیں تھی،گو کہ ظاہری مراسم اور خوش معاملگی میں آپ ؐسب بیبیوں سے برابری سے پیش آتے تھے ۔ عائشہ ؓکے بیشتر عادات و اطوار اپنے والد محترم حضرت صدیق اکبر ؓ سے ملتے تھے ۔عائشہ ؓ ان کی ہی طرح بے حد رحم دل ، محتاجان، مساکین اور غربا کی ہمدردی کرنے والی تھی ۔حضرت صدیق ؓ کی طرح عائشہ ؓ کی بھی زندگی میںایک بھی جھوٹ ثابت نہیں ہے ۔اسی نیک خصلت کے باعث آپ ؓ کو صدیقہ کے لقب سے یاد کیا جا تا ہے۔
مکی دور تبلیغ و اشاعت میںقدم قدم پر حضورؐ کی حق رفاقت ادا کرنے والی حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد مکہ سے ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔مدنی دور جو تعلیم و تدریس کا دور تھا ،میں اس کام میں اللہ رب العزت نے آپ ؐکا ہاتھ بٹانے کے لئے عائشہ ؓ جیسی ذہین وفطین اور قابل خاتون کو چنا ۔وہ جس طریقے سے آپؐ کی عقد نکاح میں آئی، اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس نکاح میں اللہ تبارک تعالیٰ کی خاص مشیعت کام کر رہی تھی ۔چنانچہ شادی کے بعد حضورؐ نے عائشہؓ سے فرمایا: ’’مجھے دو بارتمہاری صورت خواب میں دکھائی گئی ،وہ اس طرح کہ ایک فرشتہ ریشم میں لپٹی ہوئی ایک تصویر میرے پاس لایا اور کہا کہ یہ آپ کی بیوی ہے ۔میں نے کپڑا اٹھایا تو تمہاری تصویر دکھائی دی ‘‘۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ ؓسے نہایت اُلفت تھی اسی طرح عائشہ ؓ کے دل وجان میں بھی آپ ؐ کی محبت اثر کئے ہوئے تھی ،جہاں تک ہو سکتا تھا آپؐ کو راحت پہنچانے کے لئے فکر کرتی تھی اور دل سے خدمت میں مصروف رہتی تھی ۔چنانچہ ایک دفعہ حضور ؐ نے حکم الہٰی کے تحت اپنی سب ازواج مطہرات کو یہ حکم سنایا کہ اگر دنیاوی مال ومتاع اور عیش و آرام کی ضرورت ہے تو ہم خوشی سے طلاق دے دیتے ہیںاور اگر خدا اور خدا کے رسول کی مرضی اور آخرت کی راحت چاہتیںہو تو دنیاکی تکلیفیں اٹھائواور ہمارے نکاح میں رہو ۔آپ ؐ نے سب سے پہلے یہ حکم عائشہ ؓ کو سنایا، مگر ان کی نو عمری اور نا تجربہ کاری کے اندیشہ سے فرمایاکہ ماں باپ سے پوچھ کر جواب دینا۔آپؐسمجھتے تھے کہ ان کے والدین تو ہرگز جدائی کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ شاید اپنے لڑکپن اور کم عمری کی وجہ سے جدائی کو پسند کرلیں۔لیکن عائشہ ؓ اتنی سمجھدار اور معاملہ فہم تھی کہ انہوںنے بغیر کسی تامل کے جواب دیا کہ آ پ ؐ کے معاملے میں کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔میں اللہ کو، اللہ کے رسول ؐ کو اور آخرت کو پسند کرتی ہوںاور آپؐکے فیض کا دامن چھوڑنا ہرگز گوارا نہیں۔
قریباً نو برس رسول محترمؐ کی خدمت میں رہ کر عائشہ ؓنے زندگی کی سب سے بڑی مصیبت کی گھڑی یعنی اپنے سرتاج سرور کائنات ؐکی وفات دیکھی ۔آپ ؓ کے نازک اور پاک دل نے کوئی بڑا صدمہ دیکھا ہی نہیں تھا اور آپ ؐکی وفات سے بالکل حیران ہو کر رہ گئی ،لیکن انتہائی صبر سے کام لے کر دل کو سنبھالا۔عائشہ ؓ نہایت ہی فخر سے کہتی تھی کہ جب رسولؐ کی وفات ہوئی تو آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے لیٹے تھے اور آپؐ میرے حجرے میںآسودہ خاک کئے گئے ۔
حضورؐکی وفات کے بعد عائشہؓ نے امت کی تعلیم و تربیت کا فریضہ نہایت ہی خوش اسلوبی اور عمدگی سے انجام دیا ۔رسول محترمؐ کی خدمت میں رہ کر آپ ؓ نے اتنا علم حاصل کر لیا تھا کہ حضورؐ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد صحابہ کرام کو جہاں بھی ضرورت پڑتی تو ان کے پاس معلومات کے لئے آجاتے ۔عا ئشہ ؓ کی خدمت میں دینی مسائل دریافت کرنے والوں اور رسول ؐ کے احادیث مبارکہ سننے والوں کا ہر وقت تا نتا بندھا رہتا تھا ۔اس طرح حضرت عائشہ ؓ کے شب وروز مسلمانوں کو دینی علوم سے با خبر کرنے اور حضوؐر کی احادیث مبارکہ سنانے میں صرف ہوتے تھے ۔امام زہری ؓ فرماتے ہیں کہ اگر تمام مردوں اورامہات المومنین ؓکا علم ایک جکہ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہؓ کا علم ان سے زیادہ ہوگا۔الغرض شریعت محمدی ؐ کے احکام کو لوگوں تک پہنچانے میں حضرت عائشہ ؓ کا بڑا رول رہا ہے ۔
حضرت عائشہ ؓ نے رسول ؐ کی بارہ سو حدیثیں بیان فرمائی ہیں،بعض حضرات کے نزدیک ان کی تعداد زیادہ ہے ۔ان میں سے اکثر احادیث روادارانہ تعلقات سے متعلق ہیں اور ان سے خواتین کے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔نسوانی زندگی کا کوئی بھی مسلہ جب درپیش آتا تو حضرت عائشہ کے پاس ضرور اس کا حل ہوتا تھا ۔حضرت ابو موسیٰ شعری کہتے ہیں کہ اگر اصحاب رسول ؐ کو کوئی حدیث سمجھنے میں دشواری پیش آتی تو ہم حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کرتے ،جن کے پاس ان کا صحیح علم ہوتا تھا ۔جس صحابیہ کا باپ ابو بکر صدیق ؓجیسی پاکباز ہستی اور شوہر نامدار نبی ناز نینؐ ہوں وہ عظمتوں کی اونچائیوں پر براجماں کیوں نہ ہوتی۔
رسول پر نورؐکے بعد اُم ا لمومنین حضرت عائشہ ؓچھیا لیس برس بہ قید حیات رہیںاور رمضان المبارک کے مہینے میں۵۷ ھ میں علیل ہوگئی۔ ستارویں(۱۷) رمضان کوچھیاسٹھ سال بعض روایات کے مطابق ستر سال کی عمر میں انتقال فرمایا ۔حضرت ابوہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ ؓ کی وصیت کے مطابق مزار بقیع میں دفن کیا گیا ۔
[email protected]