مخلوقِ خدا سے خلوصِ دل ، خالص نگاہ ، مطہر ذہن اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا ’ حُسن ِ خلق‘ کی تعریف ہے۔ یہ حقیقی ایمان کی واضح دلیل ہے۔یہ ایسا مومنانہ وصف ہے جس سے انسانی دلوں پر حکمرانی کی جاسکتی ہے۔اس میں جاذبیت کا وہ اثر پنہاں ہے جو بلاشبہ تقریر کی سحر بیانیوں میں نہیں ہوتا۔ اسی نعمت سے انسان کی شیخی نرمی میں تبدیل ہوجاتی ہے جس سے پھرخیر،جودوسخا ، ہمدردی،انسان دوستی اور راستی کے حسین اوصاف جنم لیتے ہیں ۔یہ اللہ کی وہ عمدہ نعمت ہے جس سے انسان احسان و تقویٰ کا بلند مقام حاصل کرسکتا ہے۔ اس سے محبوبیت کا وہ مادہ پیدا ہوجاتا ہے جو کینہ، بُغض، حسد ، عداوت ،تکاثُر ، خود پسندی اور کدورت کے اصنام مسمار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ داعیان اسلام کا ایک قوی ہتھیار ہے۔ جذبہ ہمدردی کا ایک حسین اظہار۔نبی محترمؐ کی مُبارک زندگی کا وہ مطہر وصف ہے جس کی مدحت قرآن مقدس نے ان سنہرے الفاظ میں کی کہ: ’ بلا شبہ آپؐ کو اخلاق کے عظیم ترین مرتبہ پر فایض کیا گیا‘…( سورہ القلم)۔
یہی وہ ہتھیار تھا جس کی وجہ سے شقئالقلب ، اجہل و اسفل،آقا و غلام اور نہ جانے کتنے حاکم آپ ؐ کے گرویدہ بن گر دایرہ اسلام میں جاگزیں ہوئے اورصحابہؓ جیسے عظیم ا نسان وجود پاگئے ۔بقولِ اقبالؒ
آہ وہ مردانِ حق ! وہ عربی شہسوار
حامل ِ خُلق ِ عظیم، صاحب ِ صدق و یقیں
کتب ِ سیرت و احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ آپؐ کی تعلیمات میں حسن ِ خُلق کو ازبس اہمیت حاصل ہے ، چونکہ حسن ِ خلق کو حاصلِ ایمان و اسلام قراردیاگیا ہے بلکہ آپؐ کا فرمانِ عالی مقام ہے کہ ’ میری بعثت کا مقصد مکارمِ ِ اخلاق کی تکمیل ہے‘۔ (موطا) حُسن ِ خُلق کو ساقئ کوثرؐ نے بھلائی اور نیکی کا معیار قرار دیا ہے جس کا ذکر اس حدیث میں آتا ہے کہ’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق حسین ہیں‘ ۔(بخاری ومُسلم) حضرتِ عایشہ ؓسے مروی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا کہ ’ مومن حسن خلق کے ذریعے رات کو عبادت کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے شخص کا درجہ حاصل کر لیتا ہے‘۔ ( ابودائود)۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدراس وصف سے انسان قربت ِ الٰہی کا راستہ عبور کرسکتا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ نبوت سے قبل پیغمبر اسلامؐ میں حُسن ِ خلق بدرجہ اتم موجود تھا اور اس کارِ عظیم کی سپردگی کے بعد یہ صفت توا ٓپؐ میں کامل صورت اختیار کر گیا۔ اس لیے داعیانِ حق کو بدخُلقی سے اجتناب کرکے رسول محترم ؐکے اس روشن طریقہ کو اپنا شعار بنانا چاہیے تاکہ دعوت دین کی راہ ہموار کرکے محبت رسول ؐ کا ثمر اور خوشنودیٔ رب کا پروانہ حاصل کیا جاسکے۔
(مراسلہ نگار گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں طب کے طالب علم ہیں)