طارق اعظم، بارہ مولہ
تواریخ کی کتابوں میں یہ بات بالکل عیاں ہےکہ زمین و آسمان میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہوگی ،جہاں شیطان نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اسی عبادت کی بنیاد پر شیطان کا نام پہلے آسمان پر عابد، دوسرے پر زاہد، تیسرے پر عارف، چوتھے پر ولی، پانچویں پر متقی، چھٹے پر عزرائیل اور لوحِ محفوظ پر ابلیس تھا، لیکن دورِحاضر کے سانس لینے والے لوگ ،شاید یہ بات بھول گئے ہیںکہ اللہ تعالی نے پھر کیوں اتنی عبادت کرنے والے کو لعنت کا مستحق کیا اور اسے کھلم کھلا انسان کا دشمن کیوں کہا۔ جی ہاں! قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’جب اسے حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ملا تو کہنے لگا، اے اللہ! تو نے اسے مجھ پر فضیلت دے دی حالانکہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے، خدا وند تعالیٰ نے فرمایا، میں جو چاہتا ہوں وہ کرتا ہوں۔ شیطان نے اپنے آپ کو آدمؑ سے بہتر سمجھا اور ننگ و تکبر کی وجہ سے آدم سے منہ پھیر کر کھڑا ہوگیا۔ جب فرشتے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرکے اُٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ شیطان نے سجدہ نہیں کیا، تو وہ دوبارہ سجدہء شکر میں گر گئے، لیکن شیطان ان سے بے تعلق کھڑا رہا اور اسے اپنے اس فعل پر کوئی پشیمانی نہ ہوئی۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت مسخ کر دی، خنزیر کی طرح لٹکا ہوا منہ، سر اونٹ کے سر کی طرح، سینہ اونٹ کی کوہان جیسا، چہرہ ایسے جیسے بندہ کا چہرہ، آنکھیں کھڑی، نتھنے حجام کے کوزے جیسے کھلے ہوئے، ہونٹ بیل کے ہونٹوں کی طرح لٹکے ہوئے اور دانت خنزیر کی طرح باہر نکلے ہوئے۔اسی صورت میں اسے جنت سے نیچے پھینک دیا گیا بلکہ آسمان و زمین سے جزائر کی طرف پھینک دیا گیا۔وہ اب اپنے کفر کی وجہ سے زمین پر چھپے چھپے آتا ہے اور قیامت تک کیلئے لعنت کا مستحق بن گیا ہے۔ شیطان کتنا خوبصورت، حسین، کثیر العیم، کثیر العبادت، ملائکہ کا سردار، مقربین کا سرخیل تھا مگر اسے کوئی چیز (بکر، مناظرہ، حجت، مواحدیت) اللہ کے غضب سے نہ بچا سکی، صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اسے حسد ہو گیا تھا۔ ’’حسد‘‘ کہتے ہیں کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ اُس سے یہ نعمت چھن جائے، چاہے مجھے حاصل ہو یا نہ ہو۔ یہ ایک ایسی باطنی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بودیتی ہے، جس سے انسان کے تمام نیک اعمال تلف ہوجاتے ہیں اور اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق اللہ تعالیٰ چھین لیتے ہیںاور شیطان پر ناگواری گزری تھی کہ آیا یہ کیوں مجھ سے افضل ہے۔ بس یہ اس کا کرنا تھاکہ وہ سجدے وہ تہلیل و ریاضت سب کے سب اللہ کے دربار میں ہیچ بن گئے۔ اللہ بے نیاز ہے، اسے کسی کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہمیں اسکی بے حد ضرورت ہے، کیونکہ ہم عاجز ہے ہرلحاظ سے ۔ جا بجا فرمایا،’’ خلق الانسان ضعیفا۔ خلق الانسان عجولا‘‘۔ ہمارے پاس علم کی مقدار بھی بہت کم ہے، اسی لئے ہماری رہنمائی کیلے اپنا کلامِ مقدس اور اکمل، مکمل، اجمل، اطہر، اعلیٰ، اکرم ، مکرم اپنا حبیب اپنا خلیل یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی و رسول بنا کر ہماری ہدایت کیے بھیجا۔ قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس کارِ بد سے دور رہنے کی ضخیم تلقین کر رہے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے حوالے سے مختلف مواقع پر ہادیِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو حسد، کینہ، بغض اور ان جیسی دیگر باطنی اور روحانی بیماریوں سے بچنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق و اتحاد، موافقت ویگانگت اور بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو، اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ۔‘‘(صحیح مسلم،ج:۴،ص:۱۹۸۳) لیکن میری سمجھ سے بالا تر ہےکہ ہمارا سماج اس میراثِ شیطان سے خود کیوں بناؤ سنگھار کررنے لگا۔ وللہی جو فتنہ فساد اور قتل و غارت آج ہو رہا ہے۔ اس کے پیچھے صرف یہی حسد ہے۔ میرے گاؤں کے لوگوں کی جبینوں پر سجدوں کے بڑے بڑے نشان لگ گئے ہیں۔ مگر مسجد سے باہر باہر والی زندگی میں وہ بھی اس حسد نہیں بچ رہے ہیں۔ اللہ کے یہاں اس عابد کی عبادت کوئی بھی معنی نہیں رکھتی ہے، جو بلا وجہ یا حسد کی بنیاد پر کسی ذی جان کو اذیت پہنچائے۔ سب کے سب اعمال ضائع ہوجاتے ہے۔ کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ اب کیا فائدہ ہم نماز بھی پڑھے اور سحر گری سے باز بھی نہیں آئیں۔ ہمارے یہاں تو جادو گری اتنی عام سی بات ہوگی ہے۔ جیسے یہ کوئی گناہ ہی نہیں۔ لیکن کرنے والا بھی کیوں کر رہا ہے۔ فقط حسد ۔ایک عالم صاحب ایک دفعہ بیان کے دوران واقعہ سنانے لگے۔ کہا ہمارے گاؤں میں دو ہمسا یہ گھروں کے دو لڑکے ،جو دونوںمیٹرک میں ایک ساتھ پڑھ رہے تھے۔ امتحان دے دینے کے بعد جب رزلٹ نکلاتو ایک بچے کونوے فیصد مارکس آئے، دوسرے کو اسی فیصد ۔ جس بچے کونوے فیصد نمبر لائے تھے۔ اُس کے دو دن بعد وہ ایک سائڈ سے پیرالائز ہوگیا۔ سب پرشانِ حال ہوگئے۔ پھر جب تحقیق ہوئی تو اَسی فیصد لانے والےکے
بچے کی ماں نے اس پر سحر کیا تھا۔ تو کیوں کیا تھا؟ کیا اس بچے نے اسکی کوئی چیز چرا لی تھی ۔ نہیں بس اس ماں کو یہ برداشت نہیں ہوا اور دل میں حسد پیدا ہوا۔ حسد کرنے پر کتنی وعیدیں ہیں، ہم سب جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں۔ تو ہمیں چاہیے کہ خود کو اس فعل بد سے دور رکھیں ۔
حدیث کی روشنی میں،اسمٰعیل بن اُمیہؒ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تین چیزیں ایسی ہیں جن سے آدمی عاجز نہیں ۔ا۔بد شگونی، ۲۔بدظنی، ۳۔ حسد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’بدشگونی سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اُس پر عمل ہی نہ کر۔ اور بد ظنی سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اُس کے بارے میں بات ہی نہ کر اور حسد سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی بُرائی کے پیچھے مت پڑ!
جب ہم سارے اس پر عمل کریں گے ۔تو ہمارا سماج خوبخود حسد کی ہانڈی میں نہیں اُبلے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سماج میں محبت اخوت اور قدردانی کی زینت سے مزئن کریں۔ حسد کرنے سے کوئی بھی فائدہ نہیں ملتا ہے ۔بلکہ عقبا خراب ہو جاتی ہے۔ یہ دنیا عارضی ہے، ایک دن چھوڑ کر چلا جانا ہے۔ پھر کیوں تھوڑے سے وقت کیلئےہم وہ زندگی برباد کریں جو لافانی ہے۔ آئو! ہم آج سے اپنے دل میں یہ گنجائش پیدا کرتےہیں کہ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کسی نعمت سے نوازتا ہے تواُس پر حسد نہیں رشک کریں گے۔ اور اس کیلئے دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو عطا کیا ہے۔ اس میں اضافہ ہو اور جو ہمیں اللہ نے دے دیا ہے، اس پرشکر گزاری بجا لاتے ہیں۔ اس طرح سے ہمارا نظریہ بھی اعلیٰ ہوگا۔ اور ہماری سوچ مخلص بن جائے گی۔
رابطہ۔ 8082022014
[email protected]