سرینگر//مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں ہند ،پاک کی غیر سنجیدگی کو کشمیری عوام پر عتاب کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے مین اسٹریم اورعلیحدگی پسند جماعتوں کے علاوہ مدرسین و محقیقین اور صحافیوں نے مذاکراتی عمل شروع کرنے کی وکالت کی۔سابق وزیر بابو سنگھ نے عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا’’صلاح الدین سے محبت کرتا ہوں،اور انکی عزت کرتا ہوں‘‘۔سرینگر میں جموں کشمیر نیشنل لیگ کی طرف ’’کشمیریوں کی سیاسی خواہشات،تاریخی حیثیت اور عصرحاضر کے چلینج‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک روزہ سمینار کے دوران مین اسٹریم،مزاحمتی سیاست دان اور محققین کے علاوہ دیگر طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں نے ایک آواز میں کہا کشمیری عوام کی خواہشات کا احترم کیا جانا چاہئے۔سمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر بابو سنگھ نے کشمیر کو سہ فریقی تنازعہ قرار دیتے ہوئے کہا ’’ جموں کشمیر میں8لاکھ کی فوج اور نیم فوجی دستوں کی وجہ سے بھارت نے کنٹرول کیا ہے،تاہم اس دوران معصوم بچوں کے دل کو چھلنی کیا‘‘۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا،کیا یہ بھارت کے قومی مفاد کی فتح ہے۔بابو سنگھ نے وزیر اعظم ہند کی 15اگست کو لال قلعہ سے کی گئی تقریر’گولی سے نہیں گالی سے نہیں،بلکہ گلے لگانے سے بات بنے گی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دوسری ہی سانس میں کہا کہ’’مٹھی بھر ان لوگوں کو کچل دیا جائے گا‘‘۔جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ گلے لگا کر مار دینا چاہتے ہیں۔سابق وزیر نے کہا کہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے،اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو’’ ریاست میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا دفتر بھی نہیں ہوتا،اور لائن آف کنٹرول کو حقیقی سرحد کہا جاتا‘‘،تاہم ایسا نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مرکزی سرکار نے مسئلہ کشمیر پر کنفیویژن پیدا کیا ہے،اور بانت بانت کی بولیاں بول رہی ہے۔بابو سنگھ کا کہنا تھا’’وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ گجرات میں کہتے ہیں،کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے گا،اور اسی روز وزیر اعظم دفتر کے وزیر مملکت ڈکٹر جتندر سنگھ جموں میں کہتے ہیں،کہ مسئلہ کشمیر ہے ہی نہیں‘‘۔انہوں نے جہاد کونسل سربراہ سید صلاح الدین سے بات چیت کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا’’جب ناگا جنگجوئوں سے بات کی جاسکتی ہے،تو صلاح الدین سے کیوں نہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا’’میں صلاح الدین سے محبت کرتا ہو،اور انکی عزت بھی کرتا ہو‘‘۔ بابو سنگھ نے واضح کیا کہ جنگجویئت کوئی مسئلہ نہیں ہے،بلکہ مسئلہ کی شاخ ہائے ہیں،اس لئے جنگجویئت کی جڑ مٹانے کے بجائے اصل مسئلہ کو حل کیا جائے۔سابق ممبر پارلیمنٹ جی این شاہین نے کشمیری عوام کو تحفظ فرہم کرنے کیلئے حوالے سے اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کیلئے راہوں کی تلاش ناگزیر بن چکی ہے،وگرنہ ہماری نئی نسل ہی ختم ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بھارت بھر میں فرقہ پرستی کی ہوا چل رہی ہے،اس میں اندرونی خود مختاری بچانا اور بھی زیادہ اہم ہے۔ شاہین کا کہنا تھا کہ دفعہ370کو لنگڑا گھوڑا بنایا گیا ہے،اور اب دفعہ35Aپر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ تنازعہ اقوام متحدہ میں گیا تھا،تب سے صورتحال بہت تبدیل ہوچکی ہے،اور دنیا کا مزاج بھی بدل چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب کشمیر تنازعہ کا ذکر ہوتا تھا،تو دنیا بھر میں اس پر شور مچایا جاتا ہے،تاہم اب ایسا نہیں ہے،کیونکہ دنیا کی ترجیجات تبدیل ہوچکی ہے،اور اب بھارت کے ساتھ صرف روس ہی نہیں ہے،بلکہ دیگر ممالک بھی ہے۔شاہین نے ماضی میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے سابق وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپائی کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں اس تنازعہ کو حل کرینگے،تاہم انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ اگر کانگریس مرکز میں برسر اقتدار آئی،تو اس مسئلے کو وہ سرد خانے میں ڈال دے گی،اور وقت نے وہ ثابت کر دکھایا۔کشمیر پیپلز پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد حبی نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اٹوٹ انگ اور شہ رگ کے بھنور میں پھنس چکا ہے،جبکہ دونوں ملک اس بات میں سنجیدہ نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگوں کو کشمیری عوام سے ہمدردی بھی ہے،تاہم پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کوئی محبت و ہمدردی نہیں ہے۔ڈاکٹر حبی نے کہا’’بھارت کی لیڈرشپ نے بھی کشمیری عوام کو اپنا حق دینے کیلئے ہزاروں وعدے کئے،تاہم تمام وعدے توڑ ڈالے‘‘۔انہوں نے کہا کہ کھبی بھارت نے’’آسمان حد ہے‘‘ اور کھبی زیرو ٹالرنس کی بات کہی،تاہم ہر بار دماغی بخیلی پیش کی۔ ڈاکٹر حبی نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف اور اٹل بہاری واجپائی نے انسانیت کی بنیادوں پر اسی دائرے میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے پہل کی تھی،جبکہ مشرف نے واضح کیا تھا’’ بزور بازو کشمیر کوحاصل نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ ہند پاک میں پھر سے ایسے ہی تعلقات پیدا ہونے چاہے،تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ کوئی سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ ایک کروڑ50لاکھ لوگوں کا مسئلہ ہے۔جموں کشمیر نیشنل لیگ کے چیئرمین ڈاکٹر جی ایم اطہر نے کہا کہ کشمیر گزشتہ7دہائیوں سے ہند پاک کے درمیان ایک مسئلہ بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کثیر الجہتی اور کثیر الجماعتی ہونے کے علاوہ کثیر سطحی تنازعہ ہے۔انہوں نے کہا’’سنگبازی اور وادی کے شہروں اور قصبوں میں سیول کرفیو کا نفاذ عمل میں لانے کیلئے ناراض و پرخشم نوجوان آزادی کے طرفدار ہیں،تاہم جس طریقے سے وہ آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں،وہ ماضی میں کشمیر کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوا ہے‘‘کیونکہ نہ صرف وہ خود کو بے نقاب کر کے اپنی زندگی کوخطرے میں ڈال رہے ہیں،بلکہ قومی،سماجی،اقتصادی ترقی کے مقصد کو بھی خطرے میں دال رہی ہے۔ڈاکٹر اطہر نے کہا کہ ریاستی سطح پر یہ مختلف خطوں کے درمیان سیاسی مسئلہ ہے۔سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ سماجی سائنس کے سربراہ پروفیسر این ائے بابا نے کہا کہ دفعہ370کی وجہ سے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت ،بھارت میں زیادہ طاقتور ہونے چاہئے،تاہم تمام ریاستوں کے وزراء اعلیٰ سے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت کمزور ہے۔صحافی فاروق احمد وانی نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے مذاکراتی عمل شروع کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ہند پاک کے درمیان3 جنگیں ہونے کے باوجود بھی پاکستان نے اپنے موقف میں کوئی بھی تبدیلی نہیں لائی۔ سمینار میں معروف اقتصادی ماہرپروفیسر نثارر علی، نیشنل لیگ کے نائب صدر ڈاکٹر علی محمد راتھرکے علاوہ دیگر لیڈران بھی موجود تھے۔