عظمیٰ نیوزسروس
نئی دہلی//دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے ایک بیٹے کو دہشت گردی فنڈنگ کے معاملے میں ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے دوسرے کو ضمانت دے دی۔جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شلندر کور کی بنچ نے صلاح الدین کے بیٹے شاہد یوسف کی درخواست ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت استغاثہ کی طرف سے لائی گئی بڑی سازش کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔جموں و کشمیر میں دہشت گردی کی رقوم پہنچانے کے لیے حوالہ چینلز کے استعمال کے استغاثہ کے الزام پر غور کرتے ہوئے، عدالت نے کہا کہ یوسف مبینہ طور پر اس نیٹ ورک کا حصہ تھا۔
عدالت نے کہا’’الزامات کی نوعیت اور ریکارڈ پر رکھا گیا مواد پہلی نظر میں اس سازش میں اپیل کنندہ کے ملوث ہونے اور کالعدم دہشت گرد تنظیم کے معروف ارکان سے اس کا براہ راست رابطہ ثابت کرتا ہے‘‘۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسے مبینہ طور پر شریک ملزم اعجاز احمد بٹ عرف اعجاز مقبول بٹ سے رقم حاصل کی گئی تھی، یہ جانتے ہوئے کہ فنڈز دہشت گردی کی مزید سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ہائی کورٹ نے کہا کہ یوسف کے فلائٹ رسک ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ اس نے مبینہ طور پر پہلے والدین کی جعلی شناخت کے ساتھ پاسپورٹ پر سفر کیا اور بعد میں دستاویز کو تباہ کر دیا۔بنچ نے کہا کہ اس کے شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور گواہوں کو متاثر کرنے کا حقیقی امکان موجود ہے۔سید احمد شکیل کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وہ پہلے ہی 6.11سال کی طویل قید کاٹ چکے ہیں بغیر کسی یقین کے کہ مقدمے کی سماعت مناسب وقت میں مکمل ہو گی۔عدالت نے کہا کہ شکیل کے خلاف استغاثہ کی اصل بنیاد رقم کی وصولی تھی نہ کہ اس کا کسی دہشت گردانہ سرگرمی کے لیے استعمال۔اسے ایک سرکاری ملازم کے طور پر دیکھا گیا، جو شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، صورہ میں مائکرو بایولوجی ڈیپارٹمنٹ میں سینئر لیب ٹیکنیشن کے طور پر کام کر رہا تھا۔بنچ نے کہا’’اپیل کنندہ (شکیل) کو تفویض کردہ کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مرحلے پر اپیل کنندہ کی مسلسل نظربندی انصاف کی تکمیل نہیں کرے گی‘‘۔
انہیں اتنی ہی رقم کی دو ضمانتوں کے ساتھ ایک لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے پر ضمانت دی گئی۔شکیل کو این آئی اے نے 30اگست 2018کو سری نگر میں اس کی رہائش گاہ سے 2011میں درج دہشت گردی کی فنڈنگ کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔این آئی اے کے مطابق، یہ مقدمہ جموں و کشمیر میں پاکستان میں مقیم دہشت گردوں کی طرف سے حوالات کے ذریعے رقوم کی منتقلی سے متعلق ہے، جو کہ ہندوستان کے کچھ کارندوں کے ساتھ مل کر ایک مجرمانہ سازش کے تحت، جموں و کشمیر میں علیحدگی پسند اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ہوا دینے اور فنڈ فراہم کرنے کے لیے ہے۔یوسف کو اکتوبر 2017میں حزب المجاہدین سے بیرون ملک سے فنڈز حاصل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2018میں اس پر چارج شیٹ کی گئی تھی۔شکیل پر الزام تھا کہ اس نے مفرور ملزم اعجااز احمدبٹ سے ویسٹرن یونین کے ذریعے رقم حاصل کی تھی اور اس کا نام سعودی عرب کے کیڈرز کے ذریعے دہشت گرد تنظیم سے فنڈز اکٹھا کرنے، وصول کرنے اور اکٹھا کرنے میں بھی سامنے آیا تھا۔اس دوران جموں کشمیراورلداخ ہائی کورٹ نے این آئی اے عدالت کی طرف سے ایک ملزم جس کے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون کے تحت مقدمہ چل رہا تھا،کوبری کرنے کے خلاف مرکزی زیرانتظام علاقہ جموں کشمیرکی حکومت کی طرف سے دائرکی گئی اپیل کوخارج کردیا۔ اننت ناگ کی این آئی اے کی خصوصی عدالت نے سریگفوارہ کے غلام محمدلون کوگزشتہ 20فروری کواس کے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں کی روکتھام سے متعلق قانون کے تحت8ستمبر2012کودرج ایک کیس ،جس میں ممنوعہ تنظیم حزب المجاہدین کے پوسٹرچسپان کرنے اورمنتخب پنچوں اورسرپنچوں کومستعفی ہونے یانتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی تھی،میں بری کیا تھا۔ بریت کیخلاف جموں کشمیرکی اپیل کے دلائل سننے کے بعد عدالت عالیہ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ کسی کام کو’غیرقانونی سرگرمی‘ قراردیاجاتا ہے ،جب وہ بھارت کے کسی حصے کی علیحدگی یابھارت کے کسی حصے کی وفاق ہند سے علیحدگی یاجو ہندوستان کے خلاف نفرت پیداکرنے کیلئے کئی گئی ہواورجو افراد یا فرد کوایسی علیحدگی انجام دینے کی ترغیب دیتی ہو ۔جسٹس سنجے پریہاراورجسٹس سنجیوکمار نے اپنے 8صفحوں پرمشتمل حکم میں کہاایساکام یاکارروائی بھی’غیرقانونی سرگرمی‘کے دائرے میں آتی ہے جو دعویٰ کرے،سوال کرے ،ملک کی سالمیت اوریکجہتی میں خلل ڈالنے کی نیت سے کی جائے۔حکم میں کہا گیا ہے کہ پوسٹروں پرصرف منتخب پنچوں کودھمکی دی گئی تھی کہ وہ اگر مستعفی نہ ہوئے تو ان کوماراجائے گا۔تحریری صورت میں ایسے الفاظ کوملک کی سالمیت اور علاقائی یکجہتی کیلئے خطرہ تصور نہیں کیاجائے گااورنہ ہی انہیں ملک کے کسی حصے کوعلیحدہ کرنے کی کوشش قرار دیاجاسکتا ہے۔ان الفاظ کو ہندوستان کیخلاف نفرت پیدا کرنے سے بھی سمجھا نہیں جاسکتا۔غیرقانونی سرگرمیوں کے معنی کے مطابق یہ کارروائی غیرقانونی سرگرمیوں کے قانون کی شق 2(o) کے دائرے میں نہیں آتی۔ عدالت نے کہا کہ غیرقانونی سرگرمی (روکتھام) قانون کے سیکشن 13 میں اجزاء نہیں آتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کوجواب دہندہ کوالزامات سے خارج کرناچاہیے تھا اور اس کیخلاف رنبیرپینل کوڈ کے معقول دفعات کے تحت کارروائی کرنی چاہیے تھی۔عدالت نے کہا کہ ہم کیس کو ٹرائل کورٹ کو واپس بھیج دیتے تاکہ ایسے الزامات عائد کئے جاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جواب دہندہ پہلے کی آٹھ سال کی سزابھگت چکاہے اور یہ اب معقول نہیں ہوگا۔اس لئے اس اپیل میں کوئی دم نہیں ہے اور اہم اسے خارج کردیتے ہیں۔