یو این آئی
بیروت// حزب اللہ نے تنظیم کو غیر مسلح کرنے کے فیصلے پر حکومت کو ‘سنگین گناہ’ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لبنانی حکومت کے اس فیصلے کو ایسا سمجھے گی جیسے یہ فیصلہ ہوا ہی نہیں۔ڈان میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کی جانب سے شدید دباؤ اور اسرائیل کی جانب سے لبنان پر حملوں میں توسیع کے خدشات بڑھ گئے ہیں، وزیراعظم نواف سلام نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ حکومت نے سال کے اختتام تک اسلحہ صرف سرکاری فورسز تک محدود کرنے کے لیے فوج کو منصوبہ تیار کرنے کا ٹاسک دیا ہے ۔یہ منصوبہ اگست کے آخر تک حکومت کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، جبکہ جمعرات کو کابینہ کا ایک اور اجلاس طے ہے جس میں امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے غیر مسلح کرنے کے ٹائم فریم پر بھی بات چیت ہو گی۔حزب اللہ نے کہا کہ ‘حکومت نے لبنان کو دشمن اسرائیلی کے خلاف مزاحمت کے ہتھیاروں سے محروم کرنے کا فیصلہ کرکے ایک سنگین گناہ کیا ہے ’، یہ فیصلہ ایک حساس معاملے پر ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں ہوا، کیونکہ لبنان کی خانہ جنگی کے دھڑوں نے ساڑھے 3 دہائیاں قبل اپنے ہتھیار رکھ دیے تھے ۔بیان میں کہا گیاہے کہ ‘یہ فیصلہ لبنان کی خودمختاری کو پامال کرتا ہے اور اسرائیل کو اس کے امن، جغرافیہ، سیاست اور مستقبل کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کرتا ہے ، لہٰذا ہم اس فیصلے کو ایسا تصور کریں گے جیسے یہ سرے سے موجود ہی نہیں’۔حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نومبر کے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا حصہ ہے ، جس کا مقصد حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان سال بھر سے جاری کشیدگی اور 2 ماہ کی کھلی جنگ کا خاتمہ تھا۔حزب اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام امریکی ایلچی ٹام بارک کی ‘ڈکٹیشن’ کا نتیجہ ہے اور اسرائیل کے مفادات کو مکمل طور پر تقویت دیتا ہے اور لبنان کو دشمن کے سامنے غیر محفوظ کر دیتا ہے ۔