سرینگر //بڈگا م کی زینہ بیگم اپنے خاوند کی تلاش میں پچھلے 15سال سے در در بھٹک رہی ہے جبکہ کانہامہ بڈگام کی عمر رسیدہ خاتون تاجہ بیگم 17برسوں سے اپنے گمشدہ بیٹے کی تلاش کرتے کرتے تھک ہار چکی ہیں۔ یہ دونوں خواتین بھی اُن سینکڑوں خواتین کی طرح ہیں جن کے بیٹے، خاوند اور بھائی نامساعد حالات کی بھینٹ چڑھ گئے ، جن کا کوئی بھی سراغ نہیں مل سکا ہے اور حالات کی ماری یہ دو خواتین کئی برس گزرنے کے باوجود بھی اُن کی تلاش جاری رکھی ہوئی ہیں ۔پرتاب پارک سرینگر میں 10اگست کو اے پی ڈی پی کی طرف سے منعقدہ گمشدہ لواحقین کے ایک احتجاج کے دوران کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان خواتین نے کہا کہ گذشتہ کئی برسوں سے وہ اپنوںکو تلاش کر رہی ہیں لیکن کوئی مسیحا ان کے سامنے نہیں آیا جو انہیں ان کے متعلق کوئی جانکاری دے ۔کھاگ لارکی پورہ کی 35سالہ زینہ بیگم پچھلے 15برسوں سے نیم بیوہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے وہ کہتی ہے کہ اُس کے خاوند کو فوج نے 16اکتوبر 2002کو رمضان کے متبرک مہینے میں اُس وقت گرفتار کر کے اپنے ساتھ جیپ میں بٹھا کر غائب کر دیا جب وہ مکان سے تھوڑی ہی دور اپنے کھیت میں کھیتی کرنے جا رہا تھا۔اب 15برس گزر گئے اُس کا کوئی بھی سراغ نہیں مل رہا ہے کہ وہ زندہ بھی ہے یا پھر اُسے مار دیا گیا ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے اُس کی تلاش ہر ممکن جگہ پر کی، جہاں کہیں بھی پتہ چلا ، وہاں گئی لیکن ناکامیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ،انتہائی جذباتی انداز میں زینہ نے کہا کہ میرے دو بیٹے ہیں اور دونوں کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے میں نے مزدوری شروع کی، اب میرا ایک بیٹا 11ویں اور دوسرا 12ویں جماعت میں زیر تعلیم ہے ۔وہ کہتی ہے جب ان کے والد کو گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا تو اُس وقت میرے بیٹے تجمل کی عمر 12اور توصیف کی عمر 13برس تھی ۔زینہ نے کہا کہ اس حادثہ سے قبل اُن کے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھی کنبہ خوشحال تھا وہ مزدوری کرکے کماتا تھا اور ہم سب بڑے آرام سے کھاتے تھے لیکن اُس کی حراستی گمشدگی نے ہماری دنیا ہی اجاڑ کر رکھ دی۔ اے پی ڈی پی کی مدد سے میں نے اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرایا۔ ایسی ہی حالت کانہامہ بٹہ پورہ بڈگام کی خاتون تاجہ بیگم کی بھی ہے جس کا بیٹا اعجاز احمد جو پھیری کا کام کرتا تھا، 17برس قبل اُس کو بھی فوج نے گرفتار کیا لیکن تب سے اب تک وہ بھی اُس کی تلاش میں ہے۔انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر بھی اُس نے اپنے بیٹے کی تلاش جاری رکھی ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہ غم اُسے مرتے دم تک ستاتا رہے گا کہ اُس نے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا ۔