نیوز ڈیسک
نئی دہلی// وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے بدھ کو کہا کہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ کے خلاف کوئی خاص احتجاج نہیں ہوا ہے۔تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے رپورٹ پر مختلف خیالات کا اظہار کیا ۔ وزیر مملکت برائے امور داخلہ نتیا نند رائے نے ایک تحریری جواب میں راجیہ سبھا کو بتایا کہ جموں و کشمیر حکومت نے مطلع کیا ہے کہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ کے خلاف کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں ہوا۔ تاہم، مختلف سیاسی پارٹیوں نے اس رپورٹ پر مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔
حد بندی کمیشن کو 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر اور جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ، 2019 (34) کے پارٹ V کی دفعات کے مطابق جموں و کشمیر کے UT میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کا کام سونپا گیا تھا۔وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کو مناسب وقت پر ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ تحریری جواب میں، وزیر داخلہ نے کہا کہ حد بندی کمیشن نے پارلیمانی اور قانون ساز اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی کے بارے میں 14مارچ اور 5مئی کو سفارشات کی رپورٹ پیش کی تھی اور انتخابات کرانے کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اختیار میں ہے۔انہوں نے کہا کہ کمیشن نے ان جغرافیائی علاقوں کو نمائندگی فراہم کرنے پر بھی غور کیا ہے جو بین الاقوامی سرحد ،زیادہ دور دراز ہونے یا پسماندہ ہیں ،جہاں ناگوار حالات کی وجہ سے ناکافی مواصلات اور عوامی سہولیات کی کمی ہے۔انہوں نے کہا، ‘‘جموں خطہ اور کشمیر کے لیے بالترتیب 37اور 46اسمبلی نشستوں کی پچھلی تعداد کے مقابلے، حد بندی کمیشن نے جموں خطے کے لیے 43اور کشمیر خطے کے لیے 47نشستوں کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کا وعدہ بند ہے اور اسکے بعد مناسب وقت پر ریاستی درجہ کی بحالی ہوگی۔نتیا نند رائے نے مزید کہا کہ دفعہ370کی منسوخی کے بعد انٹرنیٹ خدمات عارضی طورمعطل کی گئیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر میں امن و امان کی بحالی اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ خدمات کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔ نتیا نند رائے نے کہا کہ 5اگست 2019کی آئینی تبدیلیوں کے بعد امن و امان اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔اْنہوں نے کہا، ‘‘تاہم، انٹرنیٹ خدمات کو مرحلہ وار طریقے سے بحال کیا گیا تھا۔ فی الحال جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کے طور پر، پولیس کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کرے ،جو ملک کی سلامتی اور خودمختاری کو نقصان پہنچانے والی ایسی سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے’’۔انہوں نے جموں و کشمیر حکومت سے فراہم کردہ جانکاری کے مطابق ، رواں سال کے دوران میڈیا تنظیموں سے وابستہ دو افراد کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔رائے نے کہا، ‘‘ہنگامی حالات کے دوران، ٹیلی کام سروسز کی عارضی معطلی (عوامی ایمرجنسی یا پبلک سیفٹی) رولز، 2017 کے تحت، مجاز اتھارٹی کے ذریعہ انٹرنیٹ خدمات کی عارضی معطلی کے احکامات، جموں و کشمیر حکومت کی سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے ہیں ‘‘۔