مجاہد عالم ندوی
اللہ اور اللہ کے رسولؐ پر ایمان اور اس کی گواہی کے بعد حج اسلام کے دیگر چار ارکان میں ایک ایسا رُکن ہے جو مختلف امتیازات ، بے شمار فضائل اور بے حد و حساب اجر و ثواب کا حامل ہے ۔ حج بیک وقت مالی عبادت بھی ہے اور جسمانی بھی ، اس میں مختلف موقعوں پر نماز بھی ہے اور فدیہ بھی جبکہ جانور خریدنے کی استطاعت نہ ہونے پر روزہ بھی اور بغیر مال تو اس کی فرضیت کا تصور ممکن ہی نہیں ۔
حج خانہ کعبہ کی مرکزی حیثیت اور اس کے تعلق سے مسلمانوں پر مشروع دیگر اعمال طواف ، عمرہ اور استقبال قبلہ میں بھی سب سے اہم اور نمایاں عمل ہے ۔ حج متعین مہینوں ( شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ) کی متعین تاریخوں ( 8 تا 13ذو الحجہ ) کے متعین اوقات پر کئےگئے مناسک و اعمال ( احرام ، طواف ، سعی ، قیام منی ، وقوف عرفہ ، مبیت مزدلفہ ، رمی جمرات ، حلق ، قربانی ، رمی جمرات ، مبیت منی ) اور مختلف ممنوعات احرام (سلے ہوئے کپڑے پہننا ، سر ڈھانکنا ، خوشبو لگانا ، ناخن یا بال کاٹنا ، شکار کرنا ، نکاح کرنا یا کروانا اور ازدواجی رشتہ بنانا وغیرہ ) سے اجتناب کا ایک مجموعہ اور مختلف جگہوں ( مکہ ، منی ، عرفات اور مزدلفہ ) پر ادا کیے جانے والا ایک عظیم دینی شعار بھی ہے ۔
حج اگر حلال آمدنی ، اخلاص اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے مطابق ادا کیا گیا تو حج مبرور ہے، جس کا اجر جنت ہے ،اور ہر طرح کے فسق و فجور اور گندگیوں سے بچتے ہوئے کیا گیا تو ماں کی پیٹ سے پیدا نومولود کی طرح گناہوں سے پاکی کا ذریعہ بھی ہے ۔ حج استطاعت کے باوجود نہ کیا جائے تو ایمان خطرہ میں ، یہاں تک کہ حضرت علیؓ جیسے جلیل القدر صحابی کے نزدیک اس کے یہودی ، عیسائی ہو کر مرنے میں کوئی تعجب نہیں اور حضرت عمرؓ کے نزدیک اس کا اسلام ہی مشکوک اور استطاعت کے بعد بلا عذر تاخیر موجب خسارہ ،اور ایسا کرنے پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تنبیہ بھی کہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہیے کیوں کہ معلوم نہیں آگے صورت حال کیا رُخ اختیار کرے ۔
حج ایک خاص اور منفرد عبادت ہے لیکن اس میں اسلام کی اصل بنیاد ’’ توحید ‘‘ کی طرف خصوصی توجہ اور شرک سے اجتناب کی بار بار تلقین کی جاتی ہے ، لہٰذا ’’ لبیک اللھم لبیک ‘‘ میں اللہ کے سامنے حاضری ، دیگر تمام طاقتوں کا انکار اور ہر طرح کی نعمتوں اور تعریف اللہ کے ساتھ خاص کرنے والے کلمات کو حج و عمرہ کا خاص ذکر اور دعا بنایا گیا۔
حج کے سب سے اہم دن یوم عرفہ کی سب سے افضل دعا ’’ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئی قدیر‘‘ کے ذریعہ عقیدہ توحید کی پاسداری کا عہد لیا گیا جو کہ شرک اور اس کے تمام مظاہر سے دوری کا اعلان ہے۔ حج کے موقع پر طواف کے بعد اور دیگر بعض نمازوں میں ’’ سورہ الکافرون ‘‘ اور ’’ سورہ قل ھو اللہ احد ‘‘ کے ذریعے اللہ پر ایمان کا بار بار صحیح تصور ، توحید پر ثابت قدمی اور شرک سے برأت کے اعلان کا مطالبہ کیا گیا۔
حج ایک عظیم عبادت ہی نہیں بلکہ ایک دعوتی مشن ہے اور اس میں بہت سے واضح پیغام بھی ہیں۔ دنیا کہ تمام حاجیوں کا ایک اللہ کی رضا اور اخلاص کی خاطر ، ایک رسولؐ کی اطاعت کرتے ہوئے ، ایک ہی وقت میں ، ایک ہی لباس ( احرام ) میں ، ایک ہی کلمہ ( تلبیہ ) پڑھتے ہوئے ، متعینہ وقت پر ایک ہی جگہ جمع ہونا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ ایک ساتھ آنا جانا ، آپسی اتحاد و اتفاق اور مساوات و برابری کا عملی مظاہرہ ہے تو ساتھ ہی رنگ و نسل ، زبان و لباس ، زمان و مکان ، عرف و حیثیت غرض تقسیم و تفریق اور انتشار و افتراق کی ساری بنیادوں کو زمیں بوس کرنے اور اللہ کے قرب اور حقیقی سربلندی کے لئے صرف تقویٰ اور للہیت کے پیمانہ اور معیار قرار دینے کا اعلان بھی ۔
حج میں میقات کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں، ایک مکانی یعنی وہ میقات جہاں سے احرام باندھ کر عمرہ یا حج کی نیت کی جاتی ہے اور دوسری قسم میقات زمانی یعنی حج کا زمانہ ا ورعہ ہے ،اشہر حج شوال ذوقعدہ اورذوالحجہ ۔ لیکن حج کے دیگر تمام مناسک و اعمال کے لئے بھی الگ الگ اوقات متعین ہیں جس میں تقدیم و تاخیر سی حج متأثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے اور اس طرح دیگر تمام اہم عبادات نماز ، روزہ اور زکوٰۃ میں اوقات کی پابندی اور پھر حج کے تقریبا ًتمام مناسک
و اعمال میں بھی اس کے خاص لحاظ کے ذریعہ یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ زندگی میں اوقات کا خاص لحاظ اور اس کی پابندی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ وہ نعمت ہے جس پر زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کا انحصار ہے ۔
طواف کے بغیر حج و عمرہ کاتصور ہی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خانہ کعبہ کے حقوق میں حج و عمرہ ، کعبہ کے اردگرد طواف اور اس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنا شامل ہے ، گویا طواف ایک الگ عبادت بھی ہے اور حج و عمرہ کا ایک اہم جز بھی اور اس طرح یہ پیغام دیا گیا کہ اسلام میں اللہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے ساتھ خانہ کعبہ کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کی تعمیر روئے زمین پر سب سے پہلے صرف اللہ کی عبادت کی خاطر ہوئی تھی۔ لہٰذا توحید کے اس مرکز ( جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت اور پیدائش کی جگہ بھی ہے ) اوراس کے مشن سے مسلمانوں کو کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے ۔ اسی وجہ سے حج کی ابتدا طواف قدوم سے اور اس کی تکمیل طواف وداع سے ہوتی ہے ۔
رمی جمرات سے مراد منی میں واقع شیطان کی علامت کے طور پر بنائے گئے تین ستونوں کی رمی کرنا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جسے حاجی کو تین دنوں کرنا ہوتا ہے اور غالباً اسی عمل کی وجہ سے منیٰ میں مبیت کا حکم بھی دیا گیا اور جس کے ذریعے بندہ مومن یہ پیغام دیتا ہے کہ شیطان راستے میں آ کر ہمیں اللہ کی اطاعت سے نہیں روک سکتا ، ہم اس کی بات ماننے کے بجائے اُسے دھتکار دیں گے اور کوئی بھی چیز یا کوئی بھی طاقت ایک مسلمان کو اللہ کی اطاعت سے نہیں روک سکتی ۔
حج جہاں بے شمار امتیازات ، مختلف فضیلتوں اور بے حد و حساب اجر و ثواب کا ذریعہ ہے ، وہیں اللہ کی جانب سےدی گئی رعایتوں کی بھی یاد دلاتی ہے کہ اس نے حج تمام لوگوں کے بجائے صرف اُن پر فرض کیا جو اس کی ادائیگی کی استطاعت رکھتے ہیں اور اُن پر بھی زندگی میں صرف ایک بار فرض کیا تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ یہ دین حسب حیثیت لوگوں کو مختلف چیزوں کا مکلف بناتا ہے اور کسی کو بھی ایسی چیزوں کا پابند نہیں کرتا جو ان کے لئے دشوار ہو اور اسی وجہ سے جو حج کی استطاعت نہیں رکھتے، اُن کے لئے بھی ان دنوں ثواب کے بے شمار مواقع عطا فرمائے ۔
لہٰذا، ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو سب سے افضل بنا کر ان میں تمام نیک اعمال کو اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور محبوب قرار دیا ۔ یوم عرفہ کے روزہ کو دو سال گزرے اور آنے والے سال کی گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنا دیا گیا اور قربانی کی مشروعیت کے ذریعہ اگر بلند مقاصد کے حصول کیلئے قربانی کا جذبہ پیدا کیا گیا تو جانوروں کی قربانی کے ذریعہ اجر و ثواب کا ایک اور موقع فراہم کیا گیا ۔
[email protected]>