ارشاد علی ارشاد
حج عربی زبان کا لفظ یے جس کے معنی ہیں قصد کرنا، کسی عظیم کام کا ارادہ کرنا اوراصطلاح شریعت میں ایک خاص طریقے سے ایک مخصوص وقت پر مخصوص شرائط کے ساتھ بیت اللہ کاارادہ کرنے کو حج کہتےہیں۔اور حج کا ارادہ کرنے والے کو عازم یعنی عزم کرنے والا ارادہ کرنے والا کہتے ہیں اور لفظ عازم فاعل ہے اور عازم کی جمع عازمین ہے۔اور ایک عازم جب فریضہ حج ادا کرتا ہے تو حاجی کہلاتا ہے،اور حاجی کی جمع حجاج ہے اور حج کے دوران انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں ۔اور اس مبارک سفر کو سفر محمود بھی کہتے یعنی بابرکت سفر،نیک سفر ،حرمین شریفین کا سفر۔
حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے ،جبکہ باقی چار ارکان ۔ کلمہ توحید ،نماز، روزہ اور زکوۃ ہیں۔حج کے لئے صاحب استطاعت ہونا شرط ہے۔استطاعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں طاقت ،ہمت یا مالی حیثیت ۔اصطلاح شریعت میں استطاعت سے مراد حج کی سعادت حاصل کرنے کے وسائل ہیں اور صاحب استطاعت اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس اتنی رقم موجود ہو کہ وہ حج کر سکے اور ایسے شخص کو مستطیع بھی کہتے ہیں۔
حج پوری زندگی میں صرف ایک بارفرض ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ ایک عازم کو اس عبادت کی صحیح ادئگی پر ہزار بار سوچنے سمجھنے غور خوض کرنے اور اس کی عملی مشق کرنے کی ضرورت ہے۔جس طرح سے دنیا میں کوئی بھی کام احسن طریقے سے انجام دینے میں استاد کی ضروت پڑتی ہے اسی طرح سے حج بیت اللہ کی صحیح ادئگی کے لئے علماے کرام کی رہبری اور رہنمائ لازمی ہے ۔ مناسک حج کے متعلق تمام تر مسائل کی مکمل جانکاری ہونا ایک عازم کے لئے ضروری ہے تاکہ وہ کسی تردد کا شکار نہ ہو جاے اور یہ جانکاری ہمیں تبھی حاصل ہوگی جب ہم علمائے کرام اور اللہ کے نیک وصالح بندوں کی صحبت میں کچھ وقت گزاریں اور طالب صادق بن کر فریضہ حج کی عظمت سے آشنا ہونے کی سعی کریں۔
مولانا رومی رح کا قول ہے
” یک زمانہ صحبت با اولیاء بہتر از صد سال طاعت بے ریا۔”
یعنی اگر آپ چند لمحوں کے لئے کسی اللہ کے ولی کے پاس بیٹھتے ہیں یہ بغیر ریا کاری کی سو سالہ عبادت سے بہتر ہے ۔
حج کے لئے تین مہینے مقرر کئے گئے ہیں ،ماہ شوال،ذوالقعدہ اور ذوالحجہ۔بہتر ہے کہ ایک عازم یکم شوال سے ہی اپنے آپکو دنیاوی مصروفیات سے مستثنیٰکر کے کسی دوست خدا کی صحبت اختیار کرے تاکہ پوری توجہ اور تسلی کے ساتھ مناسک حج کی جانکاری حاصل کرسکے ۔ایک نمازی گھر سے وضو کرکے استغفار، ذکر اذکار اور نظروں کی حفاظت کے ساتھ مسجد جاتا ہے اور دوسرا نمازی نماز کو فقط ایک فرض سمجھ کر اسکی ادائگی کے لئے لغویات ،زبان درازی اور نگاہوں کی حفاظت کی پرواہ کئے بغیر مسجد جاتا ہے، تو دونوں کی نماز میں واضح فرق ہوگا جو وہ خود بھی محسوس کر تے ہوں گے۔ اسی طرح سے سفر محمود کے لئے رخت سفر باندھنے سے پہلے جس قدر اس عظیم عبادت کے احکامات کومحبت اور عظمت کے ساتھ سیکھنے کا احتمام رہے گا اسی قدر حج بیت اللہ کی انجام دہی کے دوران سکون، اطمنان اور رحمت خداوندی سے فیض یاب ہونے کا شرف نصیب ہوگا، ان شاء اللہ۔
مہو تحصیل، کھڑی ضلع رام بن
رابطہ نمبر۔9906205535