ذکی نور عظیم ندوی
حج 2024 کے لئے مختلف ملکوں سے حجاج کرام کی روانگی شروع ہو چکی ہے، اگر کچھ عازمین براہ راست مکہ مکرمہ پہونچ رہے ہیں تو ایک تعداد پہلے مدینہ منورہ کے لئے رخت سفر باندھ رہی ہے۔ وہ بھی وہاں سے ہفتہ دس دن قیام کے بعد مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہو جائیںگےاور عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد ایام حج میں ان شاء اللہ مناسک حج کی ادائیگی کی سعادت حاصل کریں گے۔
سفر حج میں پوری دنیا کے مسلمان سعودی عرب آکر مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور دیگر مقامات مقدسہ میں مناسک و اعمال حج کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرتے ہیں اورحج کی پُرسکون اور آرام و اطمینان سے ادا ئیگی کیلئے تقریباً پورے سال اس کی تیاری کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ جس میں بعض امور متعلقہ ملکوں کے ذریعے انجام دئے جاتے ہیں تو بعض دیگر معاملے سعودی عرب کی حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں اور اس طرح حج انتظامات کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(1) حج میں آنے والے عازمین کا سعودی عرب کی طرف سے طے شدہ کوٹہ کے مطابق انتخاب، ان کی آمد ورفت کی تاریخ،سفرحج کے لئے فلائٹ کا انتخاب، اس کا کرایہ اور ایر پورٹ سے روانگی اوراس سے واپسی کا انتطام، حج کی ٹریننگ، جانے سے پہلے لازمی ویکسین کا لگانا، اسی طرح اس سلسلہ میں سعودی عرب کی وزارت حج سے معاہدہ کے مطابق سعودی عرب میں ان کی رہائش، وہاں اس سلسلہ کی دیگرضرورتوں بشمول صفائی ستھرائی، حاجی کے وہاں رہنے کے لئے تخت اور اوڑھنے بچھانے کے لئے تمام ضرورتوں کی فراہمی، مسجد حرام اور مسجد نبوی تک آنے جانے کے سلسلہ میں ٹرانسپورٹ کا انتظام۔ یہ تمام امورعام طور پر متعلقہ ممالک اپنے اپنے ملک کی طرف سے وہاں موجود اپنے مستقل سفارتی نمائندوں اور حج سیزن پر خاص طور پر اپنے ملک سے بلائے گئے بعض وقتی سرکاری افراد اور مقامی طور پر لئے گئے کچھ کارکنان کے ذریعہ انجام دیتے ہیں اور اس سلسلہ کی تمام ذمہ داریاں ان ملکوں اوران کے نمائندوں کی ہوتی ہیں۔
(2) حجاج کرام کے سعودی ایرپورٹ پر پہونچنے کے بعد سعودی عرب میں ان کی آمد کی قانونی خانہ پُری، حجاج کرام کوان کی قیام گاہ تک پہونچانا، ساتھ میں لائے گئے سامان کو ان کی عمارتوں اور پھر ان کے کمروں تک پہونچانا، مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ یا مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بھیجنے کا متعلقہ ملکوں کے نمائندوں سے رابطہ کے ساتھ انتظام ۔ مقامات مقدسہ کے سلسلہ کی تمام ذمہ داریاں وہاں صفائی ستھرائی، مناسک حج کی ادائیگی سے متعلق جملہ انتظامات، وہاں رُکنے اور قیام کے لئے تمام ضرورتوں کی فراہمی، متعینہ اوقات میں انکو ان خاص مشاعر تک میٹرو یا اس کے متبادل ذرئع سے پہونچانا اورپھر دوسرے اعمال کی ادائیگی کے لئے دوسری جگہ وقت کی رعایت کے ساتھ پہونچانا اور مناسک واعمال حج کی تکمیل کے بعد دوبارہ ان کی رہائش تک ان کو پہونچانا، حج مکمل ہونے کے بعد اپنے اپنے ملک واپسی کے لئے متعلقہ ایر پورٹ تک پہونچانا اور واپسی کی قانونی خانہ پری کرکے ان کو ان کے ملک واپس روانہ کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام امور سعودی عرب کی حکومت کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔
اس تحریر میں مذکورہ بالا امور کے علاوہ بعض ان امور کا جائزہ لینا مقصود ہے جن کا حجاج کرام کو گذشتہ سال سعودی عرب پہونچنے کے بعد احساس ہوا اور اس سال بھی حجاج کرام کو سعودی عرب کی حاجیوں کے تئیں کی جانے والی عظیم خدمات کو دیکھتے ہوئے اس میں مزید بہتری کی امید ہے۔
پچھلے کئی سال کورونا کی وجہ سے معمول سے ہٹ کر بہت مختصر تعداد میں زائرین کو حج کا موقع مل پایا تھا لیکن گذشتہ سال حسب سابق پوری دنیا کی ایک بڑی تعداد نے حج کا فریضہ ادا کیا اور جون کی سخت ترین گرمی میں سال 2023 کا ہونے والا حج بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے نہایت کامیابی اور بہترین انتظام کے ساتھ اختتام کو پہنچا تھا۔ جس میں حاجیوں کی حفاظت اور سلامتی کے لیے بڑے پیمانہ پر انتظامات کئے گئے تھے۔ دورانِ حج حاجیوں کی صحت و تندرستی کے پیش نظر مختلف مقامات یعنی مکہ و مدینہ، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں طبی مراکز کا قیام نظر آ رہا تھا۔ سخت گرمی کو دیکھتے ہوئے پانی کا معقول بندوبست، مصنوعی بارش کے پھوار اور پانی کی بوتلوں سے سیکورٹی پر مامور افراد کو حاجیوں کے سروں پر پانی ڈالتے اور کہیں کہیں ہاتھ کے پنکھے تک جھلتے ہوئے دیکھا گیا۔
حاجیوں کی رہنمائی کے لیے علماء کرام اور مترجمین کی خاطر خواہ تعداد کی مقامات حج میں موجودگی، حج کو آسان بنانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ پروگرامز، حرمین شریفین اور مشاعر مقدسہ میں صفائی ستھرائی اور استنجا خانوں کا معقول نظم، سڑکوں کی عمومی سیکورٹی اور نگرانی کے لیے پہلی مرتبہ ڈرونز سروس کا استعمال، غرض تمام پہلؤوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام تر ممکنہ وسائل و ذرائع اور جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا گیا اور حاجیوں کی سہولت کیلئے حیرت انگیز اور قابل تعریف انتظامات کئے گئے اور اس طرح حج شاندار طریقہ سے اختتام کو پہنچا۔
حرم مکی میں بھیڑ جمع نہ ہونے دینے کیلئے پہلے سے ہی حاجیوں کو مختلف حصوں، خاص طور پر توسیع شدہ حصہ اور حرم کی دوسری اور تیسری منزل میں پہونچانے کا منظم پروگرام اور مشاعر مقدسہ میں کسی طرح کے ناخوشگوار حادثہ سے بچنے کی خاطر ’ون وے‘ یعنی یکطرفہ آمد و رفت کی سختی سے پابندی اور منی میں حاجیوں کے کیمپ سے متصل سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت پر مکمل پابندی اور اس طرح جمرات میں آنے جانے میں ہر طرح کی دقت یا پریشانی کے سدباب کی کاوشیں بھی قابل توجہ رہیں۔
حالانکہ اس کی وجہ سے کبھی کبھی حرم میں طواف شروع کرنے سے پہلے کافی لمبی مسافت طے کرنی پڑتی اور منی میں راستہ بھولنے کی صورت میں اپنے کیمپ تک پہونچنے میں تین چار کلومیٹر کی مسافت مزید چلنا پڑتا جو بڑی عمر اور بیمار حجاج کے لئے کسی قدر گراں ہوتا۔ لیکن حکومت سعودی عرب ہر سال حج کے دوران مختلف قسم کے سروے بھی کراتی ہے اور حج کے سلسلہ میں کئے گئے انتظامات کا جائزہ بھی لیتی رہتی ہے تاکہ اس میں جہاں بہتری کی گنجائش ہو ،اس میں حسب ضرورت تبدیلی کی جاسکے امید کہ اس پہلو پر بھی ضرور غور کیا جائے گا۔
اس سلسلہ میں سعودی عرب، وہاں کے ذمہ داروں کا کردار اور رویہ قابل ستائش رہا ہے اور آئندہ بھی یہی توقع ہے کہ اس کے سامنے یہ حقیقت رہے گی کہ اگراللہ نے اسے یہ سعادت عطا فرمائی ہے کہ وہاں مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ اور آخری نبی کا مرکز ہے اور حج و عمرہ جیسی عبادتیں وہاں جائے بغیر ادا نہیں ہو سکتیں، تو وہ حج و عمرہ کے لئے سابقہ روایتوں کی طرح ایسا اعلی و بہترین نظم و نسق کرے گی اور ایسے دینی جذبہ، خیر خواہی، حاجیوں اور ان کے سلسلہ میں دیگر ضرورتوں کی انجام دہی میں مخلصانہ مزاج کے تحت سخاوت و فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ کرے گی کہ پوری دنیا کے زائرین ان اعلیٰ ترین خدمات کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔
([email protected])