توحید، نماز ،روزہ ،زکوٰۃ کے بعد اسلام میںحج ایک اہم رُکن ہے۔حج اسلام کی فرض عبادات میںسے ایک اہم فرض ہے۔ عربی میںحج کے معنیٰ زیارت کا قصد کرنے کے ہیں ۔حج میں پورے جہان سے لوگ اللہ کے گھر (خانہ کعبہ )کی زیارت کا قصد کرتے ہیں ،اس لئے اس کا نام حج بیت اللہ ہے ۔ کعبہ شریف کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے فرزند حضرت اسمٰعیل ؑنے اللہ کے حکم سے کی۔ خلیل اللہ ابراہیم ؑ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو بت پرست پجاریوں کا گھرانہ تھا ۔ ابراہیم ؑ نے اللہ کے حکم کے مطابق توحید کا اعلان کیا تو آپ ؑ کا پہلا مخالف اپنا باپ بن گیا لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے بڑی ہمت، جذبہ ایثار اور حوصلہ مندی سے کام لیا اور یکہ و تنہا ناحق کے مقابلے میں سچائی اور توحید کے علم بردار بن گئے۔ آپ ؑ کومخالفین کی وجہ سے گھر بار، رشتے ناتے ، وطن چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی اور پوری زندگی میں غلبہ حق کے لئے جدوجہد کر نا پڑی ۔اخیر عمر میںاللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو اولاد عطا کی تو ا س وقت بھی فکر صرف پیغامِ توحید پھیلانے پر مر کوزتھی ۔ پیرانہ سالی میں اللہ کے اذن سے اپنے اس وقت کے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کر ڈ النے کا اشارہ پایا تو بغیر کسی پس وپیش کو اپنا بیٹا اپنے ہاتھوں ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے ،تب جاکراللہ نے آپ کو عالم ِانسانیت کا امام بنایا ۔ اس سے یہ بتا نا مقصود تھا کہ قوموں کی امامت وہی کرسکتا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ خوشی خوشی نچھاور کر نے کو اپنی سعادت سمجھے ۔ کوئی نااہل اور خودغرض قوم کی امامت نہیں کر سکتا ۔ اپنی غیر معمولی انبیائی اہلیت اور پیغمبرانہ ایثار کی بناپرحضرت ابراہیم ؑ کو اللہ نے اسلام کی عالمگیر تحریک کا لیڈر مقرر کیا ۔تعمیر کعبہ حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل ؑ کی رہین ِ منت ہے ۔ یہی کعبہ اسلامی تحریک کا عالمی مرکز ہے ۔اللہ تعالیٰ کے گھر کا مقصد یہ ہے کہ ایک خدا کو ماننے والے ہر جگہ سے کھینچ کھینچ کر یہاں ہر سال جمع ہوا کریں، کندھے سے کندھا ملاکر خدا ئے یکتاکی عبادت کریں اور اسلام کا پیغامِ حیات لئے اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں ۔اس سالانہ اجتماع کا نام ’’حج‘‘ پڑا جس کی پوری تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص زادــ راہ اور سواری رکھتا ہو کہ جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکے اور پھر بھی حج نہ کرے تو اس کا یہودی یا نصرانی ہوکر مرنا یکساں ہے ۔ایک اور جگہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج کرنے سے روکا ہو ،نہ کسی ظالم سلطان ،نہ کسی روکنے والے نے،نہ ہی کسی مرض نے اور پھر بھی اس نے حج نہ کیا اور اسی حالت میں اُسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرجائے یا نصرانی بن کر ۔اسی کی تشریح حضرت عمرؓ نے یوں کی : ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کریں ،میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگادوں ،وہ مسلمان نہیں ہیں ،وہ مسلمان نہیں ہیں‘‘ ۔صاحب ِاستطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے ۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق روایت ہے کہ جب تک انہوں نے حج نہ کیا تھا ا،نہیں اس معاملہ میں تردّد تھا کہ اسلامی عبادات میں سب سے افضل کون سی عبادت ہے مگر جب انہوں نے خود حج کر کے اُن بے حدو حساب فائدوں کو دیکھا جو اس عبادت میں پوشیدہ ہیں ، تو بلا تامل پکار اٹھے کہ یقینا حج سب سے افضل عبادت ہے ۔ یہ مالی اور جانی دونوں عبادتوں پر محیط ہے ۔ حج کا زمانہ روئے زمین میں اسلام کی زندگی، تروتازگی اور بیداری کا زمانہ ہوتاہے ۔ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم کہلاتاہے ،حج اللہ کی بے محابہ اطاعت اور بندگی کا موسم بہار ہوتا ہے ۔ ایک ہی لبیک کی صدائیں ، ایک ہی لباس ِ احرام، خشوع و خضوع کے ساتھ ایک ہی جگہ اشک بار دعائیں ،توبہ واستغفار مسلم اُمہ کو اللہ کے ساتھ ایک ہی وفاداری کے رشتے میں باندھ دیتے ہیں ۔ کعبہ مقدسہ میں سب کا ایک امام ، سب کی ایک حرکت ، سب کی ایک ہی زبان ، سب ایک ہی اللہ اکبر کے ہی اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے اور رکوع و سجود کرتے ہیں ۔ خدا پرستوں کی یہ عالمگیر جماعت بزبان حال بتاتی ہے کہ کائنات کا ایک ہی خدا ہے ۔ یہ عالمی اجتماع تصورِآخرت اورروز محشر کی عدالت کا منظر کشی بھی کر تاہے ۔ آج کی گمراہ اور جنگ وجدل سے لٹی پٹی دنیا میں پیغامِ حج کو اپنے تمام رموز واسرار کے ساتھ عام کر نے کی اشد ضرورت ہے۔
نوٹ :مضمون نگار جموں کشمیر پیپلز پولیٹکل فرنٹ سے وابستہ ہیں ۔
فون نمبر9596483484