مسعود محبوب خان
اسلام نے عورت کی عظمت اور وقار کے تحفّظ کے لیے ایک جامع نظام پردہ متعارف کروایا ہے، جس کا مقصد عورت کی عزت اور حیاء کا محافظ بنانا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کی عزت اور عظمت کا بنیادی ستون حیاء اور عفت پر مبنی ہے۔ پردے کا مقصد صرف جسمانی حفاظت نہیں بلکہ معاشرتی ماحول کو پاکیزہ بنانا اور عورت کے مقام کو بلند کرنا ہے۔ اسلامی تعلیمات عورت کو ایک مضبوط خاندانی نظام کا حصّہ بناتی ہیں، جہاں وہ معاشرت کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک عورت کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنی خاندانی اور معاشرتی ذمّہ داریوں کو بخوبی نبھائے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان اور حیاء کی حفاظت کرے۔ عصر حاضر میں معاشرتی دباؤ کے تحت عورت کو گھر سے باہر نکلنے اور معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا کہا جاتا ہے، جس سے بعض اوقات خاندانی تعلقات اور رشتے متاثر ہوتے ہیں۔ اسلامی تصور میں عورت کو زندگی کی کامیابی کے مختلف پہلوؤں میں متوازن رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔موجودہ دور میں جب عورتیں تعلیم، ملازمت اور دیگر ضروریات کی وجہ سے گھر سے باہر نکلتی ہیں، تو غیر محرم مردوں سے ان کا واسطہ ہو جانا ایک حقیقت ہے۔ اس حوالے سے اسلام کی طرف سے دی گئی ہدایات ہیں کہ عورت جب بھی گھر سے نکلے تو پردے کا اہتمام کرے اور غیر ضروری اختلاط سے گریز کرے۔ قرآن مجید میں بھی مومنین اور مومنات کو نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی حیاء کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں اگرچہ یہ مشکل ضرور ہے، لیکن یہ اصول موجودہ چیلنجز کے دوران بھی عورت کے وقار اور احترام کو برقرار رکھنے کا ضامن ہے۔ اسلامی معاشرت میں کامیابی کا تصور روحانی اور اخلاقی اقدار سے وابستہ ہے۔ دنیاوی کامیابیوں اور ترقیوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، اسلامی تعلیمات میں عورت کو اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی روحانی ترقی اور عفت و حیاء کے تحفّظ کو سب سے زیادہ اہمیت دے۔ جب ایک عورت اپنی عزت نفس اور احترام کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی بسر کرتی ہے، تو یہی اس کی کامیابی ہے۔ آج کے معاشرتی معیارات میں، اگرچہ عورت کو باہر نکلنا پڑتا ہے اور مختلف ذمّہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں، لیکن اسے اسلامی تعلیمات کے تحت اپنی حیاء اور احترام کو ہر حال میں برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جدید دور میں کامیابی کی تعریف بدل چکی ہے۔ آج ایک عورت کو کامیاب سمجھنے کے لیے معیار یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر خود مختار ہو، جدید تعلیم یافتہ ہواور سماج میں اپنی شناخت بنائے۔ مگر اسلامی تناظر میں کامیاب عورت وہ ہے جو اپنے ایمان اور حیاء کو قائم رکھتی ہے۔ عورت کے لیے اسلام نے جو مقام اور عزت مقرر کی ہے، وہ دنیاوی معیار سے کہیں بلند اور اعلیٰ ہے۔ خواتین کی حدود اور ان کی شناخت کے تعین میں حجاب ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسلامی معاشرت میں حجاب نہ صرف لباس کا ایک حصّہ ہے بلکہ ایک مسلمان عورت کی عزت و وقار، متانت اور شرم و حیاء کا مظہر بھی ہے۔ جب ایک عورت حجاب اختیار کرتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے معاشرتی اصولوں اور دینی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ایک مخصوص دائرہ کار میں رکھتی ہے، جو اُس کے وقار اور عزت کو دوسروں تک واضح طور پر پہنچاتا ہے۔اسلامی تاریخ میں ایسی خواتین کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، جنہوں نے اپنے کردار، علم اور ہنر سے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کو متاثر کیا۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہؓ جیسی خواتین نے اپنی پاکیزہ زندگی اور علم کے ذریعے اسلامی معاشرے کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ یہ سب خواتین اعلیٰ کردار، حیاء اور وقار کی زندہ مثالیں ہیں۔ ان خواتین نے اسلام کی ابتدا میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور ثابت کیا کہ دین کے مطابق زندگی گزارنا ہی درحقیقت زندگی کی کامیابی ہے۔ ایک مسلمان عورت کی بنیادی پہچان اس کی حیاء ہے، اور یہی حیاء معاشرے کی پاکیزگی کی ضمانت ہے۔ جب ایک ماں اپنی گود میں اپنے بچّے کو پروان چڑھاتی ہے، تو وہ نہ صرف اسے علم اور عقل سکھاتی ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعے اسے شرم و حیاء، اخوت، مساوات اور عدل کے اصول بھی سکھاتی ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ باحجاب خواتین معاشرتی طور پر فعال نہیں ہوتیں یا کسی دائرے تک محدود ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ باحجاب خواتین معاشرتی نظام میں پاکیزگی اور استحکام کی علامت ہیں۔ انہوں نے اپنی محنت اور قابلیت سے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ان کی گود سے ایسی نسل تیار ہوتی ہے جو آگے چل کر قوم کا فخر بنتی ہے، علم و کردار میں بلند ہوتی ہے اور اپنے دین اور قوم کی سچی نمائندہ ہوتی ہے۔ لہٰذا، حجاب عورت کی شخصیت کا طرۂ امتیاز ہے، جو یہ واضح کرتا ہے کہ وہ اپنے احترام اور وقار کے تحفّظ میں سنجیدہ ہے۔ یہ نہ صرف اس کی شخصیت کو مزید پختگی اور وقار عطاء کرتا ہے بلکہ معاشرتی سطح پر عزت و تکریم کا رؤیّہ اپنانے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ حیاء نہ صرف فرد کی ذات میں طہارت اور پاکیزگی کا سبب ہے بلکہ پورے معاشرتی نظام کی پاکیزگی اور اخلاقی قدروں کی بقاء کا ضامن بھی ہے۔ جب حیاء معاشرے سے ختم ہونے لگتی ہے، تو پھر اخلاقی پستی اور برائیوں کا آغاز ہوتا ہے، جیسا کہ آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ آج کا معاشرہ رشوت خوری، سود خوری، اقربا پروری، بد دیانتی، اور بد عنوانی جیسی برائیوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے، اور ان تمام برائیوں کی جڑ بے حیائی اور بے شرمی ہی ہے۔ جب انسان سے حیاء اور خوفِ خدا ختم ہو جاتا ہے، تو وہ برائیوں کی جانب مائل ہو جاتا ہے اور معاشرتی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں۔جس معاشرے میں عورت محفوظ ہوتی ہے، اس معاشرے کی اقدار بھی محفوظ رہتی ہیں۔ ایسی خواتین جو حجاب میں اپنے وقار کو محفوظ رکھتی ہیں۔آج کی دنیا میں جہاں غیر اخلاقی رجحانات اور مغربی اثرات نے مسلم معاشروں پر بھی اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے، وہاں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنی روایات اور اقدار کی حفاظت کریں۔ اگر ہم اپنی روایات کو بچانے اور مضبوط کرنے کے لیے سخت فیصلے نہیں کریں گے، تو آنے والی نسلیں اپنے اسلامی اور اخلاقی تشخص سے محروم ہو جائیں گی۔ خواتین کی حفاظت اور ان کے وقار کا خیال رکھنا اسلامی معاشرت کا اہم اصول ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں عورت محفوظ ہو، وہاں نسلیں محفوظ اور مستقبل تابناک ہوتا ہے۔
[email protected]