غلامی میں بشر غیرت پہ قائم رہ نہیں سکتا
ثبات و صبر سے کوئی مصیبت سہہ نہیں سکتا
(حفیظ ؔجالندھری)
خالقِ کائنات نے اس دنیا کی تخلیق ایک ٹھوس مقصد اور مستحکم مدعا کے لئے کی ہے ۔ مختلف مخلوقات میں انسان کے سر پر عزت کا سہرا باندھ کر اُسے اشرف المخلوقات کے درجہ ٔ عالیہ پر فائز کر دیا اور تمام سامان ِ زیست بخش کر اُسے اصل میدان عمل یعنی دنیا کی طرف روانہ کردیا۔ یہاں وہ جہد ِ حیات اور بقائے جان کے حوالے سے آلام و مصائب کے نہ تھمنے والے بحرِ بیکراں میں تاوقت موت غوطہ زن رہتاہے۔ مطلب یہ کہ دنیا میں انسان کی آمد پر اس کا پھولوں کے ہار کے استقبال سے نہ ہوا بلکہ یہاں اسے بیک وقت امتحانوں ، آزمائشوں ، راحتوں اور مسرتوں سے پالا پڑا ۔ دنیا میں ایک طرف انسانی آبادی پل پل بڑھتی رہی دوسری طرف اس کے مسائلِ حیات کی پیچیدگیوں میںبھی روزافزوںاضافہ ہوتا رہا۔اس وجہ سے دنیا میں عدم توازن بڑھتا گیا،معیشت،سیاست،کاروبار، تہذیب اورتمدن وغیرہ شعبہ ہائے زندگی میں ہزارہا مسائل کھڑے ہوئے ۔ان ہی اَن گنت مسائل میں حاکم و محکوم(غلام اور آقا) کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ اس مسئلے نے تاریخِ انسانی میں وہ سیاہ باب رقم کئے کہ یاد کر کے وحشت ہوتی ہے۔ تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا باب ہو گا جہاں ہم حاکم کاظالم اور محکوم کی مظلومیت کے دلدوز مناظر نہیں دیکھتے۔اس بنا پر غلامی ہر دور میں قابلِ نفرین مانی جاتی رہی ہے۔ لفظ غلامی کے لغوی معنی ’’بندگی‘‘ یا ’’قید ‘‘ وغیرہ کے ہیں اور غلام ’’زر خرید نوکر‘ بندھوا مزدور‘‘ کو کہتے ہیں۔اصطلاح میں غلامی اس زار وزبوں حالت کو کہا جاتاہے جس میں ایک انسان اپنے فیصلوں ،حقوق اور فرائض کے اعتبار سے قید و بند کا شکار ہوتا ہے اور کسی بھی طریقے سے آزادی سے بہرہ ور نہیں ہوتا ۔غلامی کی بہت ساری اقسام ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ کی بندگی ایک چیز ہے اور بادشاہ کی غلامی اورہی چیز ۔ انسان کی غلامی تاریخ میں بحث طلب موضوع رہاہے ۔ اللہ کی بندگی بھی اگرچہ وجود باری کی غلامی ہی ہے لیکن انسان کے لئے کائنات خالق ومالک کی غلامی سزا نہیں بلکہ ابدی اعز ازہے ۔اس کے برعکس سیاسی غلامی ظلم کی نشانی ،عزت سے محرومی، بے جا مظالم سہنے کی پابندی کی ہم معنی ہوتی ہے ۔ اللہ کی غلامی ایک انسان بصد قلب قبول کرتا ہے جب کہ سیاسی غلام کو وہ مجبوری اور کمزوریسہتا ہے ۔ انسان پر مسلط خدا نما جابر حاکم یا ظالم بادشاہ اپنے غلام کے ساتھ جیسا سلوک روا رکھنا چاہے وہ اس میں آزاد ہوتا ہے، کوئی بھی اس کو روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔وہ چاہے تو اس غلام کو کچھ پیسوں کے عوض بیچ کھائے یا مسلسل محنت ومشقت کے باجوداُسے بھوکا رکھے، یہ حاکم کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔تاریخی اعتبار سے ’’سیاسی غلامی ‘‘کا رواج سب سے پہلے قدیم یونان،روم اور ازٹکس جیسے ممالک میں رہا ، پھر دھیرے دھیرے باقی ممالک اور قومیں بھی اس کی زد میں آگیں۔
انسان کی وضع کردہ غلامی دراصل ایک ایسا ظالمانہ نظام ِ عمل ہے جو سماج میں جنس،رنگ،نسل،مذہب ، سماجی رتبہ، معاشی حالت اور ذات پات کے اعتبار سے وجود پذیر ہوتا ہے۔اس نظام میں کچھ لوگ قوت ِ بازو اور مال وزر کے بل بوتے پر باقی لوگوں یا ماتحتوں کو اپنی جائداد سمجھتے ہیں ،ان پر اپنی مرضی ٹھونستے ہیں ، حکم چلاتے ہیں ، ظلم و جبر کا بازار گرم کرتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ ظالم آقا کی نظر میںغلا م انسانوں کی قدر وقیمت ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ آدم زادوں میں شمار ہی نہیں ہوتے ہیں ،اس لئے وہ کسی اخلاقی ضابطے یا قانون کے تحت بھی شمار نہیں ہوتے۔وہ اپنا نمائندہ یا امام مقرر کرنے میں آزاد نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے کوئی حقوق ہوتے ہیں ۔آقا کی فرمان برداری ہی ان کاواحد وظیفۂ حیات قرار پاتا ہے ۔غلامی میں ہر فردِ بشر کو اپنی چاہت کے خلاف ہمیشہ پُر پیچ وادیوں سے ننگے پاؤں سفر کرنا پڑتا ہے،اس میں اتنی قوت بھی باقی نہیں رہتی کہ اپنے مصائب پر اُف کر پائے، غیرت وجرأت کا مظاہرہ اس کے لیے جوئے شیر کے مترادف ہوتا ہے۔ غلامی کی زنجیروں میںجکڑا فرد یا قوم طرح طرح کے مظالم سہتے سہتے عزت اور ذلت کے معنی تک بھول جاتی ہے۔ ایسا انسان اگر اپنی صلاحیتوں اور کاوشو کے بل پرکامیابیوں کے جھنڈے بھی فضائے بسیط میںگاڑے پھر بھی غلامی کے سائے تلے وہ کامیابیاں اور کامرانیاں ہیچ ہو کر رہ جاتی ہیں ۔یہی ایک غلام انسان کی سب سے بڑی بدقسمتی اور رُسوائی ہوتی ہے۔ اس لئے غلامی سچ میں ایک ایسا چور ڈاکو کہلاسکتاہے جو لوگوں سے سب کچھ چھین لیتاہے۔ غلامی کا روگ انسان میں برے اور بھلے کی صحت مند تمیز ہی سلب نہیں کر تی بلکہ یہ لوگوں میں اچھے خیالات،عادات و اطوار بھی پیدا نہیں ہونے دیتی کیونکہ لوگ اپنی ذہنی آزادی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،ان کی اختراعی قوت ختم ہو جاتی ہے ۔ غلام اگرچہ ظاہری طور آزاد بھی نظر آئیں لیکن ان کی سوچ محکومی کے تہہ خانوں میں بُری طرح قید ہوتی ہے۔ان کی سوچوں اور عملی زندگی میں واضح فاصلے حائل ہوجاتے ہیں،اذہان میں ایسا زنگ لگ جاتا ہے کہ تعمیر اور تخریب کے معنی میں تفاوت نہیں کرسکتے ۔غلامی کی خوشیاں آزادی کے ماتم سے بھی پھیکی ہوتی ہیں ۔آزادی کی فضامیں لی ہوئی ایک سانس ہزار سال غلامی میں جینے سے بہتر ہوتی ہے ۔ آزاد فضاؤں میں جینے والوں میں غلامانہ زندگی کی طرح بات بات پر موت کا ڈر نہیں لگارہتا، اپنے معمولی حقوق دبائے جانے کا غم نہیںہوتا ، سچ بولنے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنے کا خوف نہیں ہوتا۔غرض آزادی کے رونے میں بھی شان ہوتی ہے اور غلامی کی ہنسی بھی شمشان گھاٹ کی سوگواری جیسی ہوتی ہے ۔
حاکم اور محکوم آسمان سے نہیں اُترتے بلکہ اسی زمین کی پیداوار ہوتے ہیں اور دونوں اسی میں پلتے بڑھتے ہیں،فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ غلام تمام مظالم و مصائب برداشت کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوتاہے، جب کہ حاکم عیاشیوں اور ظلم رانیوں کے لئے جنم پاتے ہیں۔ آج کل جمہوریت ، آزادی اور بشری حقوق کا بڑا شور ہے مگر عملاً دنیا اس وقت بھی حاکم ومحکوم میں بٹی ہے، حاکم جس چیز کے بارے میں جو فیصلہ صادر کرتے ہیں ،دنیا کی عدالتیں اور ایوان بھی اس کی حمایت میں استعمال ہوتے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں امریکی صدر ٹرمپ جس ملک پر فوج کشی کا فتویٰ دے اُسے بدلنے کی سکت کسی میں نہیں ۔ ا س نے فیصلہ لیا کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے منتقل کر القدس لیا جائے تو اُسے کس نے روکا یا ٹوکا ؟ا س قماش کے آقا جس جھوٹ کو چیز کو سچ گردانتے ہیں محکوموں کے لئے وہی سچائی بن جاتی ہے ،چاہے اس میں ان کے لیے کوئی فائدہ ہی نہ ہو اورجس سچ کووہ جھوٹ کہیں توکوئی بھی اس سے اختلاف کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا کیونکہ اختلاف کی صورت میں مخالف کے لیے موت کا پیغام دیا جاتا جیسے نائین الیون کے موقع پر امر یکی صدر نے پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دی کہ اگر واشنگٹن سے تعاون نہ کیا۔ پھر کیا ہو ا، تاریخ کا ایک ایک ورق غلامی اور آقائیت کے درمیان آنسو بھری کہانی پر دلالت کر تی ہے۔اس حزنیہ کہانی کاایک کردار عافیہ صدیقی ہیں جو امر یکہ کے تئیں جنرل مشرف کی اندھا دُھند جی حضوری کی بھینٹ چڑھ گئی اور اب امریکی جیل میں جرمِ بے گناہی کی پاداش عمر قید کی سزا بھگت رہی ہے ۔
مغلوب قوم کو ہمیشہ ظالم قوم کے سامنے اپنے آپ کو مطیع و فرمان بردار ثابت کرنا ہوتا ہے اور اگرکبھی وہ بیدار ہونے کی ’’غلطی‘‘کریں تو پھر ان کو پیٹ کے بل زمین پر رینگنے کا حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے۔محکوم قوم کو ایک ساتھ ذبح کیا جائے یا نہ کیا جائے یہ بھی حاکم وجابر کی ذاتی خواہش ہوتی ہے۔وہ چاہے تو غلاموں کو گھٹ گھٹ کر مارنے کا آدیش جاری کر ے ۔غلامی میں سکون اور مسرت نام کی کوئی چیزپنپنے کا نام نہیں لیتی، غلام قوم کے لئے خوشی اور غمی مساوی ہوتی ہے اور اسے ہر آن دُکھ درد،غم ، مایوسی،بے بسی ، لاچاری اورکڑوی سچائیوں سے سابقہ پڑتا ہے۔غلامی کی خوشیوں میں نہ رونق ہوتی ہے بلکہ یاس،نا امیدی اور رنجیدگی کی گھٹائیں چھائی رہتی ہیں۔ ایسے میں آدمی دن رات ایسی ذہنی تعذیبوں سے گزرتاہے جن کا سہن موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، زندگی گھٹن بھری ہوتی ہے، ہر پل خوف و ہراس میں بیت جاتا ہے اور موت بھی آجائے تو مرا ہو اغلام بے یار و مددگار ہوتا ہے۔ المختصرغلامی ایسی لاعلاج بیماری ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ حاکم کے رعب تلے بڑھتی اور گہری ہوتی جاتی ہے مگر حاکم کی ناراضگی کے ڈرسے کوئی غلام اُف تک کہہ نہیں پاتا ، نہ اپنا مافی الضمیر کو اظہار کی زبان دے سکتا ہے۔لوگ محکومی کی چکی میں پس پس کر حاکموں کے ساتھ نفرت رکھنے کے باوجوداپنی سرشت میںجی حضوری کا مرض پالتے ہیںجوانہیں منافقت سکھاتی ہے اور ان کے دلوں کو بے غیرتی والے سکون اور آسائش میں مزا آتاہے۔غلامی کا روگ انسان سے غیرت اور نڈر تا سب سے پہلے چھین لیتی ہے۔ حاکم کے خوف سے وہ کبھی اس کے مقابل میں کھڑا ہونے کی جرأت نہیں کرپاتے اور نہ ظلم وستم پر آہ کر پاتے ہیں ۔ حاکم کی نظر میں سب سے قابل اعتماد اور عقل مند کام کا غلام وہ ہوتا ہے جو ان کے خود ساختہ قوانین اور اصول و ضوابط کا پاسدارہو اور ودسروں کو ان کا پابند بنانے میں پیش پیش ہو۔اس قبیل کے غلام سب سے بے غیرت ،بے شرم اور بدترین منافقت کے پیکرہوتے ہیں۔یہ بکتے بھی ،پٹتے پیں،لٹتے ہیں لیکن کتے کی طرح مادیّت اور مفاد پرستی میں اندھا ہوکر آقاؤں کے پیچھے پیچھے ہی دوڑتا پھرتا رہتا ہے۔غلامی کے ان تمام پہلو ؤں کا احاطہ کرتے ہوئے ، ہم تاریخ میں یہ حادثات اور انقلابات بھی دیکھتے ہیں کہ جب غلام اپنے سلب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کو باغی، قانون شکن ، جنونی،شر پسند ، قوم دشن ، امن مخالف جیسے القابات سے نواز ا جاتا ہے ۔اگر وہ حاکم کے ہاتھوں اپنے ا وپر مظالم و مصائب کے خلاف آواز بلند کرے تو اُسے دیش دروہی ، دہشت گرد، انتہا پسند، شدت پسند، گمراہ اور ارہ بھٹکا جیسے موٹے موٹے دشنام سے یاد کیا جاتاہے اور کوئی بندہ حاکم سے نہیں پوچھتا حضور!آپ اپنے ظلم وستم ،ناانصافیوں اور جبرو استبداد کی کاررؤائیوں کن القابات سے یاد کر تے ہیں؟ بقول علامہ اقبالؒ ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
…………………………….
رابطہ : ریسرچ اسکالر ،سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
9596050307