سہیل انجم
ایک سیاسی مبصر کا کہنا ہے کہ کانگریس نے گزشتہ دس برسوں میں کچھ سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو لیکن یہ ضرور سیکھ لیا ہے کہ جیتتے جیتتے کیسے ہارا جاتا ہے۔ انھوں نے یہ بات حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں کہی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کانگریس راجستھان اور مدھیہ پردیش میں جیت رہی تھی اور چھتیس گڑھ تو اس کی جھولی میں تھا تو پھر ان تینوں میں اس کی شکست کیسے ہو گئی۔ مدھیہ پردیش میں تو شرمناک شکست ہوئی ہے۔ راجستھان میں بھی بی جے پی اور کانگریس کی نشستوں میں نمایاں فرق ہے۔ البتہ تیلنگانہ نے اس کی شکست کے زخموں پر جیت کا مرہم لگا دیا ہے۔ لیکن زخم اتنا بڑا ہے کہ اس کا اندمال صرف تیلنگانہ کے مرہم سے نہیں ہو سکتا۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ کانگریس کو ہارنے میں مہارت ہو گئی ہے لیکن اتنا ضرور کہتے ہیں کہ اسے خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ اسے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور پورے تنظیمی ڈھانچے کی اوور ہالنگ بھی کرنی ہوگی۔ اس کو تنظیمی سطح پر تو کام کرنا ہی ہوگا فکری سطح پر بھی کرنا ہوگا۔
سینئررہنما راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کرکے پورے ملک میں پارٹی کے اندر ایک جوش پیدا کر دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس میں جان آگئی ہے۔ کرناٹک کو بی جے پی سے چھین لینے کے بعد اس کے ولولے بڑھ گئے تھے۔ راہل، پرینکا، کھڑگے وغیرہ کی انتخابی مہم سے ایسا لگ رہا تھا کہ کم از کم راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی آندھی نہیں تو ہوا ضرور ہے۔ لیکن کیا وجہ رہی کہ وہ ہوا خود کانگریس کے خلاف ایک آندھی میں تبدیل ہو گئی اور اس کا سب کچھ اڑا لے گئی۔ اس کے پاس اگر کچھ بچا تو تلنگانہ بچا۔ وہ بی جے پی سے مدھیہ پردیش کی حکومت کیا چھینتی خود راجستھان اور چھتیس گڑھ کی اس کی حکومتیں بی جے پی نے چھین لیں۔ دراصل بی جے پی کی فتح اور کانگریس کی شکست کے کئی اسباب ہیں۔ اس میں کئی عوامل کی کارفرمائی رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بی جے پی اپنی خوبیوں سے نہیں جیتی بلکہ کانگریس اپنی خامیوں کی وجہ سے ہار گئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس پرانے طریقے سے انتخابات لڑتی ہے جب کہ بی جے پی جدید طریقوں سے لڑتی ہے۔ اس نے الیکشن لڑنے کا ایک سائنٹفک طریقہ ایجاد کیا ہے۔ بی جے پی فلاحی اسکیموں کا صرف اعلان نہیں کرتی بلکہ وہ ان پر عمل بھی کرتی ہے اور اس کے کارکن گھر گھر جا کر لوگوں سے معلوم کرتے ہیں کہ ان تک حکومت کی اسکیموں کا فائدہ پہنچا یا نہیں۔ بی جے پی کی تنظیم بہت مضبوط ہے۔ ادھر آر ایس ایس بھی اس کی مدد کرتا ہے اور وہ میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا بھی سہارا لیتی ہے۔ بی جے پی کے پاس مودی اور امت شاہ جیسے لیڈر ہیں جو انتھک محنت کرتے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری کے باوجود بی جے پی رہنماؤں نے بوتھ سطح پر کارکنوں سے رابطہ قائم کیا اور ان کو منظم کرکے زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈلوائے۔ بی جے پی کی کامیابی میں خواتین کا بہت بڑا رول ہے۔ بی جے پی نے خواتین کے لیے جو اعلانات کیے ان پر خواتین نے اعتماد کیا۔ کانگریس نے بھی خواتین کے لیے فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا لیکن اس پر اتنا بھروسہ نہیں کیا گیا۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے خواتین کے لیے ’لاڈلی بہنا اسکیم‘ کا اعلان کیا تھا۔بی جے پی نے چھتیس گڑھ میں غیر شادی شدہ خواتین کو بارہ ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا۔ چھتیس گڑھ کے کانگریس وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے بی جے پی کے جواب میں تمام خواتین کو پندرہ ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا۔ راجستھان میں کانگریس کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے پانچ سو روپے میں رسوئی گیس کا سلینڈر دینے کا اعلان کیا۔ کانگریس کو اس کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ کیا وجہ رہی کہ عام رائے دہندگان اور بالخصوص خواتین نے بی جے پی کے اعلانات پر بھروسہ کیا اس کے اعلانات پر نہیں۔
کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت کمزور ہے۔ راجستھان میں پورے پانچ سال تک اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ لڑتے رہے۔ اعلیٰ کمان اس لڑائی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ گہلوت اور کمل ناتھ نے اعلیٰ کمان کی ایک نہیں سنی اور من مانی کی۔ کمل ناتھ سمیت بعض دیگر رہنماؤں کی انانیت بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ ان کے بیانات سنجیدہ سیاست دانوں کے بیانات نہیں تھے۔ علاقائی پارٹیوں کو بری طرح نظرانداز کر دیا گیا۔ راجستھان میں بی جے پی میں بھی گروپ بازی تھی۔ وسندھرا راجے الگ ناراض تھیں۔ مدھیہ پردیش میں خود پارٹی اعلیٰ کمان کو وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان پر بھروسہ نہیں رہا۔ لیکن اس نے ان تمام خامیوں پر قابو پایا۔ وسندھرا اور شیو راج کو راستے پر لے آیا گیا۔ انھوں نے اعلیٰ کمان کی ہدایتوں پر عمل کیا۔ حالانکہ بی جے پی نے نہ تو مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ کے طور پر شیو راج سنگھ چوہان کو پیش کیا اور نہ ہی دوسری ریاستوں میں کسی کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنایا۔ لیکن شیو راج نے بغاوت کی اور نہ ہی وسندھرا نے۔ وہ پارٹی کے وفادار کارکن کے طور پر کام کرتے رہے۔ کانگریس کے رہنماؤں اور کارکنوں میں ایسا جذبہ کیوں نہیں ہے۔ بی جے پی کے منتخب ممبران بکتے نہیں ہیں کانگریس کے کیوں بک جاتے ہیں۔ کانگریس کو ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ بی جے پی کی جیت میں ہندوتو کی سیاست کی بھی کارفرمائی رہی ہے۔
کانگریس کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ بی جے پی ایک کھلی ہوئی ہندو پارٹی ہے۔ کانگریس کا اثاثہ سیکولرازم رہا ہے۔ لیکن وہ الیکشن جیتنے کے لیے اس اثاثے کو خیرباد کہنے پر تیار ہو گئی۔ کانگریس نے نرم ہندوتو کا سہارا لے کر یہ سمجھ لیا کہ وہ بی جے پی کو اسی کے ہتھیار سے مات دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے وہ سارے دھارمک حربے اختیار کیے جو بی جے پی اختیار کرتی ہے۔ ادھر کمل ناتھ تو ایک بابا کے چرنوں میں گر پڑے۔ انھوں نے کچھ دنوں قبل یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ رام مندر کی تعمیر میں کانگریس کا بھی ہاتھ ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے کانگریس کے دور حکومت میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کا حوالہ دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بابری مسجد کا تنازع کانگریس کے دور میں پیدا ہوا۔ کانگریسی وزرائے اعلیٰ نے وہ تمام راستے اختیار کیے جن پر چل کر بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہو سکے۔ اسی کے دور میں بابری مسجد کا انہدام ہوا اور وہ خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی۔ اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ تب تک پوجا کرتے رہے جب تک کہ بابری مسجد صفحہئ ہستی سے مٹ نہیں گئی۔ لیکن اس تحریک کو بی جے پی نے ہائی جیک کر لیا۔ اس معاملے میں آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد نے اس کا ساتھ دیا یا اس نے وشو ہندو پریشد کی تحریک کو ساتھ دے کر سیاسی کامیابی حاصل کی۔ اب بی جے پی کے دور میں سپریم کورٹ کے ذریعے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کو دے دی گئی۔ وہاں ایک عالیشان مندر تعمیر ہو گیا ہے۔ جنوری میں اس کا افتتاح ہوگا۔ وزیر اعظم مودی افتتاح کریں گے۔ اس وقت سے لے کر پارلیمانی انتخابات تک اس معاملے کو زندہ رکھا جائے گا۔ لہٰذا اگر کانگریس رام مندر کی تعمیر کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتی ہے تو وہ کسی بھی قیمت پر کامیاب نہیں ہوگی۔ اس کا کاپی رائٹ تو بی جے پی نے اپنے نام کرا رکھا ہے۔ ہندوؤں کی اکثریت بھی اس معاملے میں بی جے پی کو ہی کریڈٹ دے گی کانگریس کو نہیں۔ اس لیے اگر کمل ناتھ یہ کہہ کر کہ رام مندر کی تعمیر میں کانگریس کا بھی ہاتھ ہے، سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس سے کانگریس کو نقصان ہی ہوگا۔ سیکولر ووٹ اس سے دور چلے جائیں گے۔
کانگریس کے رہنما کبھی کسی سادھو سنت اور شنکراچاریہ کے چرنوں میں گر پڑتے ہیں تو کبھی کسی مندر میں جا کر درشن کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہندو خوش ہو جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ اب کانگریس نے ایک طرف جہاں سیکولرزم کا دامن چھوڑ دیا ہے وہیں دوسری طرف اس نے اقلیتوں اور مسلمانوں کی آواز اٹھانی بھی بند کر دی ہے۔ سابق مرکزی وزیر اے کے اینٹونی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کانگریس کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی بات کرتی ہے۔ جس سے ہندو ناراض ہو جاتا ہے۔ بی جے پی نے بھی یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے۔ ایک بار سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کا نام نہیں لیا تھا۔ لیکن بی جے پی اب بھی یہ پروپیگنڈہ کرتی ہے کہ من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ ملکی وسائل پر مسلمانوں کا حق ہے۔ ایسا کہہ کر وہ کانگریس کے خلاف ہوا بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ کانگریس بی جے پی کے ان پروپیگنڈوں سے ڈر گئی ہے۔ اس لیے اس نے مسلمانوں اور اقلیتوں کی بات کرنی چھوڑ دی ہے۔ وہ شاید یہ سمجھتی ہے کہ وہ ایک نقلی ہندوپارٹی کا چولہ اوڑھ کر بی جے پی کو شکست دے سکتی ہے۔ وہ مسلمانوں اور اقلیتوں کے مسائل سے چشم پوشی کرکے ہندو ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا سمجھتی ہے تو زبردست غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ کانگریس کو اپنی ایک واضح پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ ایک ایسی پالیسی جو بی جے پی کے ہندوتو کی پالیسی کے بالکل برعکس ہو۔ کیونکہ اب بھی اس ملک میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو بی جے پی کے ہندوتو کو پسند نہیں کرتے۔ کانگریس کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں، دیگر اقلیتوں اور دبے کچلے اور محروم طبقات کی آواز بنے۔
موبائل9818195929
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)