ماہ رمضان جنگ بندی ، مذاکرات پر حکومت ہند کی آمادگی اور مذاکرات کیلئے مزاحمتی قیادت کا سٹائلش اقرارحالات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرنیں تھیں جو دلوں میں امیدوں کے کئی چراغ روشن کر گئے لیکن امیدوں کے چراغ روشن ہونے کے ساتھ ہی ٹمٹمانے لگے جب زمینی حقیقت میں تبدیلی کا کوئی عکس کہیں بھی نظر نہیں آیا ۔عملی طور پر نہ جنگ بندی باقی رہی ۔ نہ مذاکرات کی کہیں سے کوئی پہل ہوئی اور نہ ہی متحارب قوتوں کی سوچ یا عمل میں کسی تبدیلی کا اشارہ بھی ملا ۔ہوسکتا ہے کہ آگے چل کرمذاکرات کے خواب کی کوئی تعبیر سامنے آئے کیونکہ ابھی بھی حکومت ہند کا کہنا ہے کہ وہ مزاحمتی قیادت کے ردعمل کاانتظار کررہی ہے تاہم اس سے قطع نظر دیکھا جائے تواس وقت زمینی حقائق پہلے سے زیادہ دھماکہ خیز ہیں اور جس طرح آتش فشاں پھٹنے سے پہلے ہی تباہی پھیلانا شروع کرتا ہے اور جب پھٹ پڑتا ہے ہر شئے کو فنا کرکے رکھ دیتا ہے، اسی طرح آج کے حالات کا آتش فشاں بھی پھٹ پڑنے کے قریب تر ہورہا ہے ۔
اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ کشمیر کے حالات ریاستی حکومت کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔اس کا اظہار اور اعتراف خود وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی تقریباً ہر روز یہ کہہ کر کررہی ہیں کہ تشدد سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ ظاہر ہے کہ ان کی حکومت کی تمام تر قوت اپنے سارے وسائل کے باوجود تشدد روکنے میں ناکام ہے، اس لئے وہ لاچار ہوکر تشددکے نقصانات سمجھانے کی کوشش اور اسے روکنے کی اپیلیں کررہی ہیں۔وہ مرکزی سرکارسے بھی جنگجوئوں ، مزاحمتی قیادت اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کی روز اپیلیں کرتے ہوئے انہیں یہ بھی سمجھا رہی ہیں کہ جب شمالی اور جنوبی کوریا ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں تو بھارت اور پاکستان اپنے اختلافات کیوں نہیں مٹاسکتے اور ایک دوسرے کے قریب آکر ایک نئی تاریخ کیوں مرتب نہیں کرسکتے ۔لیکن ان کی اپیلوں کی صدائیں بین الاقوامی سرحد اور کنٹرول لائن پر گولہ باری کے شور میں کون سن سکتا ہے ۔لاچاری کا یہ ستم شاید ہی کسی وزیر اعلیٰ پر ٹوٹا ہو کہ اس کی طاقت اور قوت صرف اپیلوں تک محدو د رہ گئی ہو ۔وہ کشمیر کے عوام سے بھی اپیلیں کررہی ہیں ، مزاحمتی قیادت سے بھی ، پاکستان سے بھی ، اور ہندوستان سے بھی ۔ ہند سرکار نے کافی اپیلوں کے بعد ان کی عزت رکھی اور ماہ رمضان کیلئے جنگ بندی کا اعلان کردیا لیکن جنگجوئوں نے اسے مسترد کرکے عملی طور پر بھی اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔مزاحمتی قیادت نے مذاکرات پر رضامندی کا اظہا ر کرکے انہیں خوشی اور امیدکا ایک موقع دیا لیکن امیدوں کے چراغ کہیں گرنیڈ دھماکوں اور کہیں شہری ہلاکتوں کی آندھیوں میں بجھ گئے ۔ادھر ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ میں سرحدوں پر جنگ بندی کی پاسداری کا عہد بھی ان کیلئے اطمینان کا باعث تھا لیکن یہ عہد بھی دو دن سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکا ۔چنانچہ وزیر اعلیٰ کی ساری امیدیں ہوا میں تحلیل ہورہی ہیںاور جوں جوں امیدوں کے محل مسمار ہورہے ہیں ان کے سیاسی دائرے بھی سکڑ رہے ہیں ۔وادی کے حالات ان کے قابو سے باہر ہونے کے بعد آخری حربے کے طور پر انہوں نے مذاکرات کو حالات کی تبدیلی سے مشروط کرکے حالات کا بوجھ حکومت ہند کے کندھوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی اس طرح انہوں نے اپنے سیاسی وجود کو بچانے کا ایک دائوکھیلا تھا لیکن یہ دائو بھی الٹا پڑرہا ہے ۔اب وہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حالات کے رحم و کرم پر ہیں اور ان کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی تیزی کے ساتھ اپنا وجود اوراپنی حیثیت کھورہی ہے ۔
عملی طور پر وادی کے سیاسی میدان پر بلاشرکت غیرے مزاحمتی خیمے کا قبضہ ہے جبکہ حالات عسکریت پسندوں کے قابو میں ہیں۔ پی ڈی پی سمیت دیگر تمام قومی دھارے کی جماعتوں کے اہم ورکر اور شخصیتیں اپنے اپنے علاقوں سے ہجرت کرکے سرینگرکے محفوظ علاقوں میں سرکار کی طرف سے فراہم کئے گئے ہوٹلوں کے کمروں ، محکمہ اسٹیٹس کے کواٹروں اور پرائیویٹ رہائش گاہوں میںاپنے سرکاری محافظوں کی چھتر چھایا میںچھپے بیٹھے ہیں ۔ مزاحمتی قوتوں کے ساتھ سیاسی مقابلے کا خیال بھی انہوں نے چھوڑ دیا ہے ۔وہ اننت ناگ کی پارلیمانی نشست ہو یا پنچایتی انتخابات، کوئی ورکر کام کرنے پر آمادہ نہیںکیونکہ میدان میں مزاحمتی قوتوں نے ان کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں چھوڑی ہے ۔
اس صورتحال نے انتظامیہ پر بھی حکومت کی گرفت کو کافی حد تک ڈھیلا کردیا ہے ۔انتظامی ڈھانچے کی من مانیاں بڑھ رہی ہیں اور حکومت اپنی اتھارٹی کھورہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ اس صورتحال کو پوری طرح سے محسوس کررہی ہیں ۔ انہیں اپنی لاچارگی کا دکھ بھی ہے لیکن کوئی ایسا راستہ انہیں نہیں دکھائی دے رہاہے بلکہ موجود بھی نہیں ہے جو اس صورتحال سے نکلنے میں مددگار ہوسکتا۔ ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے میں مخلوط حکومت میں ان کی شریک دوسری جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی قدرے بہتر پوزیشن میں ہے ۔اس جماعت کا سیاسی میدان جموں ہے جہاں صورتحال بے قابو نہیں ۔ بی جے پی کے کارکن ہمہ وقت سرگرم ہیں اور اسمبلی ممبران اپنے اپنے حلقوں میں کام بھی کررہے ہیں ۔ جموں میں ترقیاتی اور تعمیراتی سرگرمیاں بھی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہیں جس کا کریڈٹ حاصل کرکے بی جے پی نہ صرف پی ڈی پی بلکہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو اگلے انتخابات میں جموں سے بے دخل کرنے کے منصوبے پر کام کررہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مخلوط حکومت کے اتحاد کو قائم رکھنے کیلئے مرکز بعض اوقات محبوبہ مفتی کی ناپسندیدہ باتوں کو نظر انداز کررہی ہے ۔تاکہ جموں میں پارٹی کو اور زیادہ مضبوط کرنے کیلئے درکار وقت اسے حاصل رہے بی جے پی اس دبائو کا فایدہ انتہائی مہارت کے ساتھ اٹھارہی ہے جو محبوبہ مفتی پر ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر کے موجودہ حالات بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اوروہ کشمیر اور پی ڈی پی دونوں کوان کے حال پر چھوڑ کر2019ء کے انتخابات کا انتظار کررہی ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیر کے حالات کو اپنی پارٹی مفادات کے آئینے سے ہی دیکھتی آرہی ہے ۔ کشمیر میں ہورہی ہلاکتیں اور بین الاقوامی سرحد و کنٹرول لائن پر گولہ باری اس لحاظ سے اس کے لئے کارآمد اور مفید ہے ۔بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے حالات اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں بن رہے اوراسے یہ اطمینان بھی حاصل ہے کہ فوجی جمائو کے ہوتے کشمیر اس کے ہاتھ سے پھسلنے کا کوئی امکان موجود نہیں۔اس نے مذاکرات کار کا تقررعمل میں لاکر بین الاقوامی سطح پر امن کی کوششوں کے لئے ایک جواز پیدا کیا ہے ۔مذاکرات کار کو نہ عوام کا کوئی تعاون حاصل ہوسکا ، نہ علیحدگی پسند محاذ کا لیکن وہ جتنے بھی وفود سے ملے، ان کے ساتھ بات چیت سے انہیں صورتحال سے متعلق کچھ اندازے حاصل ہوئے جن کی بنیاد پر انہوں نے غالباً ایک طویل المدتی منصوبہ تیار کیا ہے ۔ انہی کے مشورے پر رمضان جنگ بندی کا اعلان ہوا اور مذاکرات پر آمادگی کااظہار بھی کیاگیا ۔ان دونوں اقدامات سے اگرچہ صورتحال میں کوئی بدلائو نہیں ہونے والا ہے تاہم ان کے لئے آگے کام کرنے کی جگہ فراہم ہوسکتی ہے ۔
مجموعی طور پر شطرنج کی ایک بساط بچھی ہوئی ہے جس میں پی ڈی پی کاوجود اس امید پر ٹکا ہوا ہے کہ کوئی معجزہ ہوجائے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل بحال ہوجائے یا مزاحمتی قیادت کے ساتھ مذاکرات کی کوئی راہ نکل آئے تاکہ عوام میں اس کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہوسکے ۔ بی جے پی تمام مقامی جماعتوں کا بسترہ گول کرنے کے دائو کھیل رہی ہے اور مزاحمتی قیادت عزت کے مصنوعی آسماں پر ٹکے رہنے کی فکر میں ہے ۔یہ سارا کھیل عوام کی سمجھ سے باہر ہے اوروہ اس یقین کے ساتھ اپنی جانیں لڑا رہے ہیں کہ جنگجوئوں کی کلاشنکوف اور پتھر بازو ںکے پتھر ہندوستان کو کشمیر سے بھاگ کھڑا ہونے پر مجبور کردے اور یہاں اسلامی نظام قائم ہوجائے ۔
…………………….
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)