پرویز احمد
سرینگر //سال 1989میںبمنہ سرینگر میں تعمیر کئے گئے ہسپتال کی عمارت کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں مریضوں کا آنا جانا رہتا ہے۔ہسپتال کی پرانی عمارت کسی بھی طور کسی طبی ادارے کی بلڈنگ نہیں لگ رہی ہے۔عمارت کے اندر بنائے گئے وارڈ کسی مکان کے کمرے لگ رہے ہیں جن کا فرش ٹوٹا پھوٹا ہے، بجلی کی تاریں اکھڑی ہوئی ہیں، بیت الخلا گندگی سے بھرے پڑے ہیں یا کموڈ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ وارڈوں میں واش روم کی حالت بالکل خسہ ہوچکی ہے، صٖفائی اگر ہر وقت بھی کرلی جائے لیکن بلڈنگ کا طرز تعمیر اس قدر پرانا ہے کہ اس میں صفائی کا فقدان ہر وقت رہے گا۔اس ہسپتال کا نام پہلے جہلم ویلی کالج تھا جو اصل میں 1989 میں معرض وجود میں آیا۔جسے 1998 میں حکومت جموں و کشمیر نے سنبھال لیا تھا۔کیمپس تقریبا ً400 کنال اراضی پر محیط ہے اور ہسپتال کو چلانے کیلئے ٹرسٹ نے 1993 میں ہسپتال کا آغاز کیا لیکن وہ نہیںچل سکا۔ یہ کالج 7 سال چلا،جس کے تین بیچ پہلے ہی پاس ہو چکے تھے۔ کالج کے فارغ التحصیل افراد MCI کی منظوری کے بعد کوئی نوکری حاصل کرنے یا پوسٹ گریجویشن کے لیے جانے کے قابل نہیں تھے۔ لہٰذاطلبا کے مفادات کے تحفظ کے لیے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت نے ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے اس کو سکمزصورہ کے ساتھ 1998 میں منسلک کیا۔ہسپتال کی بنیادی بلڈنگ کوسال 2014کے تباہ کن سیلاب میں شدید نقصان پہنچا اور اسے عالمی بینک نے غیر محفوظ قرار دیا ۔ عالمی بینک کی مدد سے ہسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر سال 2018میں شروع کی گئی تاہم 6سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجود بھی نئی بلڈنگ مکمل نہیں ہوسکی۔ نئی بلڈنگ کی تعمیر میں تاخیر سے نہ صرف مریضوں کو شدید مشکلات بلکہ طبی و نیم طبی عملے کو بھی کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔جموں و کشمیر سرکار نے مئی 2017کو بلڈنگ کی تعمیر کو منظور دی اور ایک سال بعد ہسپتال کی مین بلڈنگ کی تعمیر پر کام شروع ہوا جو نامعلوم وجوہات کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ 17کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے جے وی سی ہسپتال کی نئی بلڈنگ کا ابتک ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے جبکہ بلڈنگ کے تمام اندرونی کام ہونا ابھی باقی ہے۔ ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پچھلے چند سال میں ہسپتال میں علاج و معالجہ آنے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور روزانہ تقریباً 2500مریضوں کااندراج ہورہا ہے۔مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کا علاج کرتے وقت نہ صرف انہیں بلکہ ہسپتال میں تعینات عملے کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ نئی بلڈنگ کی تعمیر سے ہسپتال میں 150بستروں کا اضافہ ہوگا اور نئی بلڈنگ جدید طرز تعمیر کے ساتھ ساتھ 250بستروں پر مشتمل ہوگی۔ میڈیکل سپر انٹنڈنٹ سکمز ہسپتال بمنہ ڈاکٹر شفا دیوا نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ ہسپتال کی نئی بلڈنگ کی تعمیر کا کام بند نہیں ہوا ہے بلکہ سست رفتاری کا شکار ہے۔‘‘ ڈاکٹر شفا کا کہنا تھا کہ ابھی چند دن قبل ہی نئے پرنسپل نے عہدہ سنبھالا ہے اور آئند ایک دو دنوں میں میٹنگ کے بعد ہی کام میں سست رفتاری کی وجوہات کا پتہ چلے گا۔